ماضی میں تین بڑے پڑوسیوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں۔ مصر، اردن اور شام۔ تینوں کو اسرائیل سے شکست ہوئی۔ ہم اس کالم میں جائزہ لیں گے کہ اسرائیل کو عربوں یا پڑوسیوں پر کیا برتری حاصل ہے۔
مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے 50 سال قبل اس بڑی حقیقت کا واشگاف اعتراف کر لیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں کامیابی کی وجہ اس کی ہم پر فضائی برتری ہے۔
اسرائیل کے پاس 1967 میں عرب ملکوں کے مقابلے میں ایک طیارے اور ایک پائلٹ کے بدلے تین طیارے اور تین پائلٹس موجود تھے جن کی جنگی مہارت اور تکنیکی صلاحیت، ہم سے بہت بہتر تھی۔
جمال عبد الناصر جہاندیدہ لیڈر تھے، انھوں نے اعتراف کیا کہ ہماری شکست ہماری لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے، جس تکینیک کو ہمارا دشمن جانتا ہے، وہ ہمیں نہیں معلوم۔
صحافی نے تب سوال کیا تھا : جنابِ صدر ! جہاز تو مصر کے پاس بھی بہت ہیں۔ جمال عبد الناصر نے کہا: میں بتلا چُکا ہوں کہ اسرائیل کے پاس جہازوں کے علاوہ جہاز چلانے کی مہارت ہم تینوں ملکوں (مصر، شام اور اردن) سے زیادہ ہے۔
یہ حقیقیت ہے کہ اسرائیل کے پاس 1967 میں بھی بہترین فوجی ادارہ اور جدید ترین عسکری نیٹ ورک موجود تھا۔ ایک ٹیکنالوجی کے ساتھ دوسری ٹیکنالوجی جُڑی ہوئی تھی۔
گزشتہ دنوں سرائیل نے اپنی اسی تکنیکی برتری کے تسلسل کو ثابت کرتے ہوئے نصف صدی بعد، لبنان میں حزب اللہ کے خلاف دو جدید ترین تکنیکی کارروائیاں کر کے 6000 سے زائد افراد کو زخمی اور درجنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
کبھی وہ پیجر حملے کرتا ہے، کبھی وہ واکی ٹاکی حملے کرتا ہے، کبھی وہ ایسے بم مارتا ہے جن کا کام زیر زمین داخل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
در اصل اسرائیل وہ جنگ لڑ رہا ہے جو عرب جانتے ہی نہیں۔ یہ ٹیکنیکل وار فئیر ہے۔ اس میں بہادری کا تعلق مضبوط جسم اور قوی دل سے نہیں، با صلاحیت دماغ سے ہے۔
اسرائیل نے وہ تیاری کی ہے جو عرب یا مسلمان جانتے ہی نہیں۔ مسلمان جو ڈیوائسز اپنے پیسوں سے خرید کر اپنی جیبوں اور اپنے گھروں میں رکھتے ہیں، اسرائیل انھیں اپنے جنگی ہتھیاروں میں بدلنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو ہمارے موبائیل فونز اور انٹرنیٹ کی دیگر ڈیوائسز اسرائیل کے بم بھی ہیں اور جاسوس بھی۔ اور اس ٹیکنالوجی کا استعمال اس نے پچھلے ایک ماہ کے دوران لبنان میں حزب اللہ کے خلاف کیا ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ جو تکنیک پیجر اور واکی ٹاکی حملوں میں استعمال ہوئی ہے، کیا وہ دوسرے مواصلاتی آلات، کمپیوٹرز، ٹی ویز، الیکٹرک کاروں، جدید گھڑیوں، کیمروں اور ڈرونز میں استعمال نہیں ہوسکتی؟
حال ہی میں متعارف ہونے والی ٹیسلا کار میں تو ایسی سہولتیں بھی میسر ہیں کہ ایک ملک میں بیٹھ کر اسے دوسرے ملک ہیک بھی کیا جا سکتا ہے اور اسی کار کو کسی حملے استمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
اگر موبائل فونز، پیجر یا اس طرح کی دوسری چیزوں سے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا تو خوف کے ساتھ ان چیزوں کے استعمال کی بہت بڑی خلیج پیدا ہو سکتی ہے۔ ضرورت کے آلات اور ان کی تجارت کی نئی جہتیں ابھر سکتی ہیں۔
جمال عبد الناصر نے 50 برس قبل جس خدشے کا اظہار اور اپنی شکست کا اعتراف کیا تھا، وہ خدشہ اور خطرہ اب دُگنا ہو چکا ہے۔ دشمن، عربوں یا مسلمانوں سے دو نہیں دس قدم آگے چل رہا ہے۔ مسلمانوں کو بڑی کروٹ کی ضرورت ہے۔
تاریخ پڑھ لیجیے، آپ کی ملاقات صرف اُنہی فاتحین سے ہوگی جنھوں نے ایجادات کیں۔ جیت کا اسلحہ اور جیت کی سواری بنائی۔ پھر اس پر سوار ہوئے تو فتح نے ان کا استقبال کیا۔ عربوں اور مسلمانوں کو سادہ لوحی کا لباس اتارنا ہوگا۔
منگولوں نے ایسی کمان ایجاد کی تھی جب ان کے گھڑ سوار، گھوڑوں کی پُشتوں پر سے تیر پھینکتے تھے تو تیر خود بہ خود اپنا ہدف ڈھونڈ لیتے تھے۔ کوئی تیر نہیں چُوکتا تھا۔
عرب سالاروں نے تارکول سے آگ لگانے والے کیمائی ہتھیار بنائے تھے جو سمندوں میں بھی آگ لگا دیتے تھے۔ عثمانیوں نے جدید توپ خانے ایجاد کیے تھے جنھوں نے قسطنطنیہ کے مضبوط قلعوں کو زیر و زبر کر دیا تھا۔ سچ پوچھیں تو وہی معاملہ آج کی گواہی دے رہا ہے۔