مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایران نواز گروہوں کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوششوں کے تحت امریکہ نے لبنان کو 230 ملین ڈالر (تقریباً 23 کروڑ امریکی ڈالر) کی بڑی سیکیورٹی امداد دینے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام خطے میں طاقت کے توازن کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی امریکی کوششوں کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے، اور مبصرین کے مطابق اس کا مرکزی ہدف حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ہے۔
امریکی سفارتی ذرائع کے مطابق اس امداد میں سے 190 ملین ڈالر لبنانی فوج کو دیے جائیں گے جبکہ 40 ملین ڈالر داخلی سیکیورٹی فورسز کو فراہم کیے جائیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ ریاستی ادارے ملک بھر میں اسلحے اور طاقت کے توازن پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکیں، ایک ایسا ہدف جو براہِ راست غیر ریاستی مسلح تنظیموں خصوصاً حزب اللہ کے وجود کو چیلنج کرتا ہے۔
لبنانی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ سال 2025 کے اختتام تک ملک میں صرف ریاستی ادارے ہی مسلح ہوں گے۔ یہ پالیسی واضح طور پر حزب اللہ جیسے گروہوں کو غیر مسلح کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ تاہم، حزب اللہ نے اس اعلان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ "مزاحمتی کردار” کو ترک نہیں کرے گی۔
یہ امداد ایسے وقت میں دی گئی ہے جب امریکہ کئی دیگر ممالک کے لیے غیر ملکی امدادی فنڈز میں کمی کر چکا ہے، لیکن لبنان کو دی جانے والی یہ امداد اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مالی تعاون اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر مکمل عمل درآمد کے لیے دباؤ بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے، جو لبنان اور اسرائیل کے درمیان 2006 کی جنگ کے بعد سیکیورٹی توازن قائم رکھنے کی بنیاد بنی تھی۔
لبنانی صدر اور وزیراعظم کی جانب سے بھی حالیہ بیانات میں اشارہ دیا گیا ہے کہ فوج اور ریاستی ادارے ہی ملک میں طاقت کے مرکز ہوں گے۔ حزب اللہ کے ناقدین اسے ریاست کے اندر ریاست قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی مسلح موجودگی لبنان کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔ دوسری طرف، حزب اللہ خود کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک دفاعی دیوار کے طور پر پیش کرتی ہے۔
یہ امداد ٹرمپ انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ پالیسی 2.0 کا حصہ ہو سکتی ہے، جہاں غزہ، ایران، لبنان اور یمن جیسے خطوں میں طاقت کے مراکز کو محدود کرنا اور غیر ریاستی عسکری گروہوں کو کمزور کرنا اولین ترجیح بن چکی ہے۔
