اسلام آباد: یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی، کایا کالس نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین غزہ کی پٹی میں قائم عبوری اتھارٹی میں شمولیت کے لیے تیار ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کا ایک اہم جزو ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یورپ کو اس تاریخی امن عمل میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور وہ امن کونسل کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ جوہان وڈیفول نے بھی ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے ہفتے کے آغاز تک جنگ بندی پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، فوجی کشیدگی میں کمی اور غزہ میں انسانی رسد کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ باقی مسائل کے حل کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
یہ بیانات مصر کے شہر شرم الشیخ میں شروع ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے دوران سامنے آئے ہیں، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے کے طریقہ کار اور جنگ بندی کے دیگر پہلوؤں پر بات چیت جاری ہے۔ مذاکرات میں مصر، امریکہ اور قطر ثالث کے طور پر شامل ہیں اور یہ امن کوششیں امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تحت ہو رہی ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کا بنیادی مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تباہ کن جنگ کو ختم کرنا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔ فی الحال غزہ میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 20 زندہ ہیں۔
جمعہ کے روز حماس نے یرغمالیوں کی رہائی اور منصوبے کے چند دیگر نکات پر اتفاق کیا، تاہم اس نے غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرنے اور سیاسی کنٹرول سے دستبردار ہونے کی شرائط پر کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کیا۔ حماس، جو 2007 سے غزہ کی پٹی پر حکومت کر رہی ہے، اب بھی اس منصوبے کی مکمل تفصیلات پر متفق نہیں ہے۔
عرب اور مغربی ممالک کی حمایت سے ٹرمپ نے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں امید کا اظہار کیا ہے، تاہم امن عمل کے اس نازک مرحلے میں کئی پیچیدگیاں موجود ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں دیرینہ بحران کا کوئی پائیدار حل نکل سکے۔
