شام نے آج ایک نئے سیاسی دور میں قدم رکھا ہے، ملک کے مختلف علاقائی انتخابی اداروں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ووٹرز نے اُن نمائندوں کا انتخاب کیا جو بشارالاسد کے بعد قائم ہونے والے پہلے پارلیمان کا حصہ بنیں گے۔ یہ عمل شام کی عبوری قیادت کے لیے ایک اہم امتحان سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ملک کو ایک نئے سیاسی نظام کی سمت میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صبح سویرے شروع ہونے والی ووٹنگ شام کے وقت تک جاری رہی، جس میں تقریباً چھ ہزار منتخب ووٹرز نے اپنے ووٹ ڈالے۔ یہ تمام افراد علاقائی انتخابی اداروں کے رکن ہیں جنہیں یہ اختیار دیا گیا کہ وہ 210 رکنی ایوان کے دو تہائی ارکان کا انتخاب کریں۔ باقی ایک تہائی ارکان کا تقرر عبوری صدر احمد الشرع خود کریں گے۔
یہ انتخابی ڈھانچہ براہِ راست عوامی ووٹ کے بجائے بالواسطہ ووٹنگ کے نظام پر مبنی ہے، جسے موجودہ عبوری انتظامیہ نے اس لیے اپنایا کہ کئی سالہ خانہ جنگی، نقل مکانی، اور تباہ شدہ آبادیاتی ریکارڈ کی وجہ سے ملک گیر ووٹنگ کا درست نظام فی الحال ممکن نہیں۔ لاکھوں شہری اب بھی یا تو بیرون ملک پناہ گزین ہیں یا اپنے ہی ملک کے اندر بے گھر ہیں، جس سے ووٹر لسٹوں کی تکمیل ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔
نئے پارلیمان کی مدت کار تیس ماہ رکھی گئی ہے، تاہم آئینی ڈیکلریشن کے مطابق اس میں توسیع کا امکان بھی موجود ہے۔ مکمل ایوان کے قیام کے بعد یہ پارلیمان نیا وزیراعظم منتخب کرے گا، عبوری بجٹ کی منظوری دے گا، اور طویل المدتی آئینی اصلاحات پر غور کرے گا۔
انتخابی کمیشن نے مجموعی طور پر 1,570 امیدواروں کی منظوری دی ہے، جن میں تقریباً چودہ فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ اگرچہ اس شمولیت کو ایک مثبت علامت قرار دیا جا رہا ہے، تاہم مبصرین کے نزدیک یہ تناسب اب بھی محدود ہے۔ امیدواروں نے اپنے منشور عوامی نشستوں اور مختصر مباحثوں میں پیش کیے، لیکن ملک بھر میں انتخابی جوش و خروش ماند رہا، کیونکہ سکیورٹی وجوہات کے باعث بڑے جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہیں دی گئی۔
سرکاری حکام کے مطابق کسی ایسے امیدوار کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی جو سابق نظامِ حکومت کی کھلم کھلا حمایت کرتا ہو یا ملک کی تقسیم کی بات کرتا ہو۔ اس شرط کو بعض تجزیہ کاروں نے ایک سیاسی فلٹر قرار دیا ہے جس کے ذریعے انتخابی منظرنامے کو مخصوص حدود میں محدود رکھا گیا ہے۔
ملک کے تین صوبوں — السویداء، الرقہ، اور الحسکہ — میں انتخابی عمل فی الحال مؤخر کر دیا گیا ہے کیونکہ ان علاقوں میں حالات غیر مستحکم ہیں۔ ان صوبوں کی مجموعی انیس نشستیں فی الوقت خالی رہیں گی۔ تاہم، الرقہ اور الحسکہ کے وہ حصے جو حکومتی کنٹرول میں ہیں، وہاں ضمنی انتخابی کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں تاکہ حالات بہتر ہونے پر وہاں ووٹنگ کروائی جا سکے۔
ووٹنگ کے دوران سکیورٹی اداروں کی موجودگی نمایاں رہی۔ کئی شہروں میں پولنگ مراکز کے باہر مسلح گارڈز تعینات کیے گئے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اگرچہ مجموعی طور پر دن پُرامن گزرا، مگر کچھ علاقوں میں ٹرن آؤٹ کم رپورٹ ہوا۔ حکام کے مطابق عوامی شرکت کی کم شرح کے باوجود یہ قدم شام کے سیاسی استحکام کی جانب ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب توقع ہے کہ ووٹنگ کے نتائج آئندہ چند گھنٹوں میں جاری کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد صدر احمد الشرع باقی ارکان کا تقرر کر کے ایوان کو مکمل کریں گے۔ پارلیمان کے فعال ہونے کے بعد یہ ادارہ حکومتی منصوبوں کی توثیق، بجٹ کی منظوری اور پالیسی رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ انتخابات محض ایک رسمی مرحلہ نہیں بلکہ ایک علامتی امتحان ہیں — کہ آیا شام واقعی ایک متحد سیاسی راستے کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ عبوری ڈھانچہ بھی پرانے اختیارات کے تسلسل کا ذریعہ بنے گا۔ عام شہریوں کی نگاہ میں یہ امید باقی ہے کہ یہ پارلیمان اُن کے زخم خوردہ وطن کو دوبارہ جوڑنے، مفاہمت کو فروغ دینے اور دیرپا استحکام کی بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔
