یہ مملکت سعودی عرب کا پرچم ہے، منفرد اور لازوال پرچم، کلمہ طیبہ والا ایمانی پرچم، اقوام عالم کا سب سے منفرد پرچم، یہ وہ پرچم ہے جو کبھی سرنگوں نہیں ہوا۔
آندھی چلے یا طوفان آئے، دنیا ناراض ہو یا خوش ہو، کسی کے قوانین ٹوٹیں یا ان کے قوانین میں ترامیم ہوں، یہ جھندا کبھی کسی کے آگے نہیں جھکایا گیا۔
یہ پرچم سعودی عرب کے بانی ملک عبد العزیز آل سعود نے پچھلی صدی میں بنایا تھا، اور سعودی قوم نے آج تک اس پرچم کی لاج رکھی ہے۔
یہ پرچم سرکاری و نجی عمارتوں، غیر ملکی سفارت خانوں، اور قونصل خانوں پر تو لہرایا ہی جاتا ہے لیکن یہ پرچم مسلم اقوام کے دلوں پر بھی لہراتا ہے۔
سعودی پرچم کی کیا شان ہے، دنیا کے باقی تمام پرچم سرنگوں ہوتے ہیں لیکن یہ پرچم سرنگوں نہیں ہوتا اور نہ ہی غیر ملکی مہمانوں کے اعزاز میں گارڈ آف آنر دیتے ہوئے اسے جھکایا گیا۔
سعودی قوانین کے مطابق اس جھنڈے کو تجارتی ٹریڈ مارک اور اشتہاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
سعودی پرچم میں سبز رنگ ترقی اور زرخیزی کی علامت ہے، سفید رنگ امن و امان کو ظاہر کرتا ہے، تلوار اس امن و امان کے قیام کی ضمانت کے طور پر لگائی گئی ہے اور کلمہ طیبہ کا مطلب شرعی قوانین کا نفاذ ہے۔
یہ جھنڈا تین صدیوں سے لہرا رہا ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔
شروع میں جب الدرعیہ کے مقام پر 1727 میں آل سعود کی پہلی سلطنت قائم ہوئی تھی تب سعودی جھنڈے کی ساخت کچھ الگ تھی۔
وہ پرچم بھی سبز تھا اور اس پر بھی کلمہ کندہ تھا اور اسے لکڑی کے ستون یا چبوترے پر نصب کیا جاتا تھا۔
وہ پرچم پہلی اور دوسری سعودی حکومتوں کے زیر استعمال رہا لیکن جب تیسری سعودی حکومت قائم ہوئی تو جھنڈے میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی۔
یہ تبدیلی شاہ عبد العزیز آل سعود نے کی جو تیسری اور موجودہ سعودی سلطنت کے بانی تھے۔
انھوں نے پرچم میں کلمہ طیبہ کے ساتھ دو تلواروں کا اضافہ کردیا۔ لیکن کچھ وقت کے بعد دو تلواروں میں سے ایک تلوار کو ختم کردیا گیا۔
گیارہ مارچ 1937 کو بانی مملکت شاہ عبد العزیز آل سعود کو موجودہ پرچم کی تجویز پیش کی گئی جسے انھوں نے منظور کرلیا۔
یہ پرچم اب تک جوں کا توں ہے، نہ رنگ بدلہ ہے نہ روپ، وہی سرسبز و شاداب پرچم، وہی کلمہ طیبہ ہے اور وہی تلوار کی کاٹ ہے۔