کوانٹیکو (ورجینیا): سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی پُراثر تقریر سے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے۔ ورجینیا کے شہر کوانٹیکو میں امریکی فوجی قیادت سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ دنیا میں آٹھ بڑی جنگوں کا خاتمہ کر چکے ہیں اور اس بنیاد پر خود کو نوبل امن انعام کا اصل حقدار سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ انعام اُن افراد کو دیا جا رہا ہے جنہوں نے ان کے خلاف کتابیں لکھیں، جبکہ اُن کی امن قائم کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن معاہدوں کو ممکن بنانے، اور افغانستان سمیت کئی خطوں میں جنگوں کے خاتمے کو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے غزہ اور یوکرین جیسے حساس تنازعات کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن موجودہ حکومت کی کمزوریوں کے باعث یہ جنگیں دوبارہ بھڑک اٹھیں۔ حماس کے حوالے سے ٹرمپ نے واضح خبردار کیا کہ اگر جنگ بندی کے لیے سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو نتائج نہایت سنگین ہوں گے۔
یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتین اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی دونوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ دونوں رہنما باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے جنگ کا خاتمہ کریں۔ ٹرمپ نے کہا: ہم پوتین کا بھرپور مقابلہ کریں گے تاکہ یوکرین کی جنگ ختم ہو، لیکن بائیڈن حکومت نے دنیا کو بدامنی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی آئندہ پالیسی میں وزارتِ دفاع کا نام بدل کر وزارتِ جنگ رکھنے کا ارادہ ہے تاکہ امریکی فوجی طاقت کی اصل روح اجاگر ہو سکے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکہ کی فوج کو ازسرنو منظم کیا اور اب امریکہ ہر میدان میں دنیا سے آگے نکل چکا ہے، خاص طور پر چین اور روس جیسے حریفوں کے مقابلے میں آبدوزوں اور ہوائی دفاع میں سبقت حاصل ہو چکی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکہ اب چھٹی نسل کے جدید ترین جنگی طیارے کی تیاری کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے، جو دنیا کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی پالیسیاں صرف امریکہ ہی نہیں، دنیا کے لیے امن، استحکام اور طاقت کا پیغام تھیں، اور اگر انہیں دوبارہ موقع ملا تو وہ دنیا کو جنگوں سے نکال کر ایک نیا عالمی نظم قائم کریں گے۔
