واشنگٹن: امریکا میں بجٹ تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور حکومت کا شٹ ڈاؤن نافذ ہو گیا ہے، جس کی وائٹ ہاؤس نے بھی باضابطہ تصدیق کر دی ہے۔ ریپبلکنز کی جانب سے پیش کی گئی شٹ ڈاؤن روکنے کی تجویز مطلوبہ 60 سینیٹ ووٹ حاصل نہ کر سکی اور 55 کے مقابلے میں 45 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔
یہ دسمبر 2018 کے بعد امریکا میں پہلا شٹ ڈاؤن ہے، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے بڑے حصے کی فنڈنگ رک گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں سرکاری ملازمین بلا معاوضہ رخصت پر چلے گئے ہیں، جبکہ اہم سروسز جیسے ایمرجنسی، ایئر ٹریفک کنٹرول اور ٹی ایس اے عملہ بدستور کام کرتا رہے گا مگر انہیں تنخواہیں نہیں ملیں گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال کو اپنے ایجنڈے کے حق میں استعمال کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شٹ ڈاؤن مزید نوکریوں کی برطرفی کا باعث بن سکتا ہے۔ صدر کے مطابق حکومت کو مختصر اور مؤثر بنانے کے لیے اخراجات اور نوکریوں میں کٹوتی ناگزیر ہے۔
اس بندش سے عام شہریوں کی زندگی بھی متاثر ہوگی۔ فضائی مسافر لمبی سیکیورٹی لائنوں اور پروازوں میں تاخیر کا سامنا کریں گے۔ پاسپورٹ اور ویزا پروسیسنگ بھی سست روی کا شکار ہو گی۔ نیشنل پارکس اور میوزیمز کو بند کرنے کا امکان ہے، جبکہ اسمتھسونیئن ادارہ اپنے پاس موجود فنڈز کی بدولت وقتی طور پر کھلا رہے گا۔
شٹ ڈاؤن سے سماجی پروگرامز بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق میڈی کیئر اور میڈیکیڈ جیسے پروگرام جاری رہیں گے لیکن عملے کی کمی خدمات میں خلل ڈال سکتی ہے۔ غذائی امداد کے پروگرام WIC اور SNAP بھی خطرے میں ہیں اگر شٹ ڈاؤن طویل ہوا۔
سیاسی منظرنامے پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ایک دوسرے پر ناکامی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ریپبلکنز نے اسے "ڈیموکریٹ شٹ ڈاؤن” قرار دیا ہے جبکہ ڈیموکریٹس کا مؤقف ہے کہ ریپبلکن اکثریت کے باوجود بل کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی جمود امریکی عوام کے لیے مشکلات بڑھائے گا، جبکہ مالیاتی منڈیاں فی الحال اس صورتحال کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہیں۔
