روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے ایک اور خطرناک موڑ لے لیا ہے، جب جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب روسی افواج نے یوکرین کی گیس اور بجلی کی بنیادی تنصیبات پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ کر دیا۔ یوکرین کی سرکاری گیس کمپنی "نفتوگاز” کے مطابق اس حملے میں روس نے 35 میزائل اور 381 ڈرونز داغے، جن میں سے 60 ڈرونز نے براہ راست گیس کی پیداواری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
یہ حملے خاص طور پر شمال مشرقی شہر خارکیف اور وسطی علاقے پولٹاوا میں کیے گئے، جہاں توانائی کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔ گیس کمپنی کے سربراہ سرہی کوریٹسکی نے اس حملے کو "شہری تنصیبات کے خلاف دانستہ دہشت گردی” قرار دیا اور کہا کہ روس کا اصل مقصد یوکرینی گھروں کو شدید سردی میں ہیٹنگ سے محروم کرنا ہے۔
اس حملے کے نتیجے میں کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی، جبکہ درجہ حرارت صفر سے نیچے گرنے کے باعث لاکھوں افراد شدید سرد موسم میں اندھیرے اور بے بسی کا شکار ہو گئے۔ وزارت توانائی نے تصدیق کی ہے کہ متعدد علاقوں میں بجلی کا نظام متاثر ہوا ہے۔ یوکرین کی فضائیہ نے بتایا کہ 18 میزائل اور 78 ڈرون اپنے اہداف تک پہنچے، جب کہ باقی کو راستے میں ہی تباہ کر دیا گیا۔ اس حملے کو 2022 میں روسی افواج کے یوکرین پر حملے کے بعد سے توانائی کے شعبے پر سب سے بڑا اور منظم حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ادھر یوکرین نے بھی خاموش تماشائی بننے کے بجائے جوابی کارروائی کی۔ یوکرینی سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ کیف نے قازقستان کی سرحد کے قریب روسی علاقے اورینبرگ میں ایک آئل ریفائنری پر کامیاب ڈرون حملہ کیا، جو کہ یوکرین کی سرحد سے تقریباً 1400 کلومیٹر دور ہے۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی غیر مصدقہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ڈرون ریفائنری سے ٹکرا کر زور دار دھماکے کے ساتھ دھوئیں کے بادل چھوڑتا ہے۔ روسی گورنر نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے۔
ایک اور افسوسناک واقعہ میں، روسی ڈرون حملے نے خارکیف کے علاقے نوودولازکا میں ایک خنزیر فارم کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں فارم میں آگ لگ گئی جو ساری رات بھڑکتی رہی۔ یوکرین کی ایمرجنسی سروسز کے مطابق اس واقعے میں تقریباً 13,000 خنزیر جل کر ہلاک ہو گئے، جبکہ فارم کا ایک ملازم زخمی ہوا۔ اس حملے کو نہ صرف معیشت بلکہ خوراک کے شعبے پر بھی کاری ضرب قرار دیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2024 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے روسی پاور گرڈ حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے روس کے سابق وزیر دفاع اور فوجی کمانڈر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ ماہرین کے مطابق تازہ ترین حملے روس کے خلاف ان الزامات کو مزید مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر جب ان کا ہدف شہری انفرااسٹرکچر اور عوامی زندگی ہو۔
یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب یوکرین پہلے ہی توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آنے والے سخت سرد مہینوں میں یوکرین اپنی توانائی ضروریات کیسے پوری کرے گا؟ اور عالمی برادری روس کی ان کارروائیوں کا کتنا سخت نوٹس لے گی؟ دنیا کی نظریں اب کیف اور ماسکو کے درمیان اس نئے توانائی محاذ پر جمی ہوئی ہیں۔
