کییف / ماسکو: روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ بدھ کی صبح یوکرین کے زیرِ کنٹرول شہر خرسون میں زوردار دھماکوں سے فضا لرز اٹھی، جب کہ سومی اور چرنیہیف کے علاقوں میں فضائی حملوں کے سائرن بجنے لگے، جس سے شہری آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
اسی دوران روسی علاقے بیلگورود میں یوکرین کی سرحد کے قریب ایک گاؤں پر راکٹ حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ ملبے تلے مزید افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کے مطابق گزشتہ رات روسی فضائی دفاعی نظام نے یوکرینی افواج کے 53 ڈرون مار گرائے، جن میں سے 28 بیلگورود، 11 وورونیش، 6 روستوف اور دیگر روسی صوبوں کے اوپر تباہ کیے گئے۔
گزشتہ روز روسی صدر ولادی میر پوتین نے سینٹ پیٹرزبرگ میں وزارتِ دفاع اور جنرل اسٹاف کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ہنگامی اجلاس کیا، جس میں یوکرین کے محاذ پر تازہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ روس کے جنرل اسٹاف کے سربراہ والیری گیراسیموف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ روسی افواج تقریباً تمام محاذوں پر پیش قدمی کر رہی ہیں، جبکہ یوکرینی فوج دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ روسی فضائی حملے منصوبہ بندی کے تحت یوکرین کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
دوسری جانب یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی نے منگل کی شب اپنے خطاب میں الزام لگایا کہ روس "یورپ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ڈرونز کو تخریبی کارروائیوں میں استعمال کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، روس نہ صرف تیل بردار جہازوں کے ذریعے جنگی مالی وسائل حاصل کر رہا ہے بلکہ انہی جہازوں کوڈرون حملوں کےلیےبھی استعمال کر رہا ہے۔
زیلنسکی نے بتایا کہ ان اطلاعات کی تصدیق یوکرینی انٹیلی جنس اداروں نے کی ہے۔ ادھر ڈنمارک اور جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک میں حالیہ دنوں میں نامعلوم ڈرونز کی پروازیں دیکھی گئی ہیں، تاہم ان کے ماخذ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
روس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا یورپ میں کسی تخریبی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔ روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری مدویدیف نے اس کے برعکس الزام عائد کیا کہ ممکن ہے یوکرین خود یورپ کو جنگ میں گھسیٹنے کے لیے ایسے حملے کر رہا ہو، کیونکہ یوکرینی افواج بھی اب طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز تیار کر رہی ہیں۔
