واشنگٹن:امریکی حکومت کے وفاقی اخراجات کے لیے فنڈنگ رکنے کے باعث پیدا ہونے والا شٹ ڈاؤن بدھ کو دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے، جب کہ کانگریس میں تعطل کی فضا بدستور قائم ہے۔ ایوانِ نمائندگان بند ہے اور سینیٹ مسلسل ناکام ووٹنگ میں الجھی ہوئی ہے تاکہ حکومت کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی قابلِ قبول فارمولہ طے کیا جا سکے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بحران جلد ختم نہ ہوا تو وہ وفاقی ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیاں کر سکتے ہیں اور بقایا تنخواہیں روکنے کا فیصلہ بھی زیرِ غور ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ موقف سابقہ پالیسیوں سے انحراف ہے، جس کے تحت شٹ ڈاؤن کے بعد تمام ملازمین کو واجبات ادا کیے جاتے تھے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک نئے میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے دوران تنخواہیں کانگریس کے فنڈنگ بل سے مشروط ہوں گی۔ بظاہر یہ اقدام کانگریس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے تاکہ وہ حکومت کے دوبارہ کھلنے کی راہ ہموار کرے۔
سینیٹ میں سینیٹر برنی سینڈرز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومت اور ڈیموکریٹس کے درمیان کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب ریپبلکن ارکان سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر ان کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ وہ ڈیموکریٹس کے اس مطالبے کو روک رہے ہیں کہ کسی بھی فنڈنگ ڈیل میں قومی صحت بیمے (ہیلتھ کیئر) کے لیے فوری فنڈز شامل کیے جائیں۔
ڈیموکریٹس کا مؤقف ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ صحت کی بڑھتی لاگت سے عام شہریوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق، اس بحران کا اصل ذمہ دار صدر ٹرمپ ہیں جن کی “سیاسی ضد” ملک کی معیشت اور عوام کے روزگار پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
اسی دوران ریپبلکن سینیٹرز مارجوری ٹیلر گرین اور جوش ہاؤلی نے قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے ابتدا میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، تاہم بعد میں مؤقف بدلتے ہوئے کہا کہ پہلے حکومت کھولنا ضروری ہے، پھر بات چیت ممکن ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق موجودہ بحران نہ صرف لاکھوں سرکاری ملازمین بلکہ امریکی معیشت پر بھی گہرا اثر ڈال رہا ہے، کیونکہ حکومتی بندش کے باعث اہم وفاقی محکمے، تعلیمی منصوبے، اور عوامی خدمات معطل ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹی مَرے نے ٹرمپ انتظامیہ پر قانون شکنی اور وفاقی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ “یہ شٹ ڈاؤن صرف بجٹ نہیں بلکہ نظامِ حکمرانی کے لیے بھی ایک بڑا امتحان بن چکا ہے
