اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں امن قائم کرنے کے اپنے منصوبے کی تیاری میں سعودی عرب، قطر، ترکی، مصر اور اردن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس خطے میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں موجود تمام یرغمالی جلد اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جائیں گے، اور یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ریکارڈ شدہ بیان میں کہا کہ ہم ایک عظیم اور بے مثال دن سے گزر رہے ہیں، جب غزہ میں جنگ ختم ہو رہی ہے اور یرغمالی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے اس امن منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں اور وہ انصاف اور امن کے لیے پرعزم ہے۔
حماس نے امریکی امن منصوبے کے چند نکات کو قبول کر لیا ہے جبکہ کچھ پر مزید مذاکرات کی ضرورت باقی ہے۔ حماس کے بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنی تنظیمی قیادت، فلسطینی سیاسی جماعتوں، دیگر دھڑوں اور ثالثوں سے مشاورت کے بعد اس منصوبے پر ذمہ داری سے موقف اختیار کیا ہے۔
بین الاقوامی برادری نے بھی اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حماس کی قیدیوں کی رہائی کی رضامندی کا استقبال کیا جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ "غزہ میں تمام قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی اب قریب ہے۔” جرمن چانسلر فریڈرِش میرٹس نے بھی امن اور قیدیوں کی رہائی کے قریبی ہونے کی تصدیق کی اور امریکی منصوبے کو خطے میں امن کے قیام کا بہترین موقع قرار دیا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے اہم نکات میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی، خاص طور پر 100 سے 200 سخت سزایافتہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ حماس کو عام معافی کی پیشکش کی گئی ہے بشرطیکہ وہ غزہ چھوڑ کر اپنے ہتھیار حوالے کر دیں، جو بعد میں عرب بین الاقوامی فورس کے ذریعے جمع کیے جائیں گے۔
منصوبے کے تحت غزہ کی انسانی ہنگامی ادارے کو بند کیا جائے گا اور انسانی امداد بلا روک ٹوک اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا کرے گا، شہریوں کی حفاظت کے لیے محفوظ راستے بنائے جائیں گے، اور پانچ سال میں بین الاقوامی اتحاد کے ذریعے غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔ اس دوران ایک فلسطینی سکیورٹی فورس بھی قائم کی جائے گی جو عرب بین الاقوامی نگرانی میں علاقے کی انتظامیہ سنبھالے گی۔
یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں امن، استحکام اور ترقی کی نئی راہ کھولنے کا ایک تاریخی موقع سمجھا جا رہا ہے۔
