مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی عالمی امن سربراہی کانفرنس نے غزہ کے مستقبل سے متعلق ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کانفرنس میں امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ، فرانس اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے شریک ہیں، جبکہ دنیا بھر کی نظریں اس اجلاس پر مرکوز ہیں۔
فرانسیسی صدر عمانوئل میکروں نے مصر پہنچنے پر ایک غیر معمولی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "فرانس آئندہ مرحلے میں غزہ کے انتظام میں ایک انتہائی خاص کردار ادا کرے گا، جو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر انجام دیا جائے گا۔” انہوں نے واضح کیا کہ فرانس فلسطینی اتھارٹی کو مرکزی حیثیت دینے کے حق میں ہے تاکہ جنگ کے بعد ادارہ جاتی اصلاحات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ میکروں نے مزید کہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی کانفرنس میں شرکت ایک “مثبت علامت” ہے، جو فلسطینی اتھارٹی کے آئینی کردار کا عالمی اعتراف ہے۔
دوسری جانب، پیر کے روز حماس نے ایک اہم اقدام کے طور پر اپنے قبضے میں موجود 20 اسرائیلی مغویوں کو زندہ حالت میں رہا کر دیا۔ اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پہنچے، جہاں انہوں نے کنیسٹ سے خطاب کیا اور اس کے بعد شرم الشیخ امن کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل 250 فلسطینی قیدیوں اور ان 1700 افراد کو رہا کرنے پر رضامند ہو گیا ہے جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
فرانسیسی صدر میکروں نے قیدیوں کی رہائی کو ’’امید کی کرن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل، غزہ اور پورے خطے کے لیے امن اب ممکن ہو چکا ہے۔”
کانفرنس کے دوران غزہ کے آئندہ انتظامی ڈھانچے پر تفصیلی مذاکرات جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کے اختتام پر ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے، جس میں امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ اور فرانس بطور ضامن ممالک شامل ہوں گے۔ یہ ممالک غزہ میں مستقبل کے امن اور استحکام کے لیے مشترکہ ذمہ داری قبول کریں گے۔
کانفرنس میں پیش کیے گئے ٹرمپ پلان نے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق، اسرائیل مرحلہ وار اپنی افواج کو غزہ کے شہروں سے واپس بلائے گا اور ان کی جگہ مصر، قطر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے دستوں پر مشتمل ایک کثیرالقومی فورس تعینات کی جائے گی۔ اس فورس کا آپریشنل کنٹرول امریکی نگران مرکز کے زیرِ انتظام ہوگا۔ منصوبے کے تحت حماس کو غزہ کے انتظام سے مکمل طور پر خارج کر دیا جائے گا، اس کے تمام ہتھیار ضبط کیے جائیں گے، اور غیر سیاسی فلسطینی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی علاقے کے روزمرہ امور سنبھالے گی۔
یہ کمیٹی ایک نئی عبوری بین الاقوامی اتھارٹی کے ماتحت ہوگی، جس کی سربراہی خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس اتھارٹی کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو، انتظامی اصلاحات، اور پائیدار امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی نگرانی فراہم کرنا ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شرم الشیخ کانفرنس مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو گیا تو غزہ کی دہائیوں پر محیط تباہی اور بدامنی کا باب بند ہو سکتا ہے، مگر سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا حماس واقعی اس عمل سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گی؟ اور کیا اسرائیل اپنے وعدوں پر قائم رہے گا؟
بہر حال، شرم الشیخ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض ایک اجلاس نہیں یہ امن کی آخری امید ہے، ایک موقع کہ دنیا غزہ کو جنگ کے بجائے استحکام، شراکت اور ترقی کے نئے دور میں داخل ہوتے دیکھ سکے۔
