ماسکو: روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے واضح کیا ہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر عمل درآمد کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کا عمل ناگزیر ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں خصوصاً 1967 کی سرحدوں کے مطابق مکمل اور خودمختار ہو۔ روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق لاوروف نے یہ بات پیر کے روز ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
لاوروف نے کہا کہ ماسکو ٹرمپ پلان کو غزہ کے لیے ایک قابل عمل آپشن کے طور پر ضرور دیکھتا ہے، مگر اسے فلسطینی مسئلے کا مکمل حل نہیں سمجھتا۔ ان کے مطابق اس منصوبے میں صرف غزہ کا ذکر موجود ہے، جبکہ مغربی کنارے کی حیثیت، فلسطینی ریاست کی حدود اور خودمختاری جیسے اہم امور کو واضح اور تفصیلی انداز میں طے کرنا باقی ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی اکثریت کی طرح روس بھی ان قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کا حامی ہے جن میں 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ امن کوششیں مثبت سمت میں بڑھ رہی ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ جب یہ منصوبہ مکمل طور پر نافذ ہوگا تو فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
لاوروف نے واضح کیا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل شفاف ہوگا، اہداف درمیان میں نہیں بدلیں گے، اور کھیل کے اصول تبدیل نہیں ہوں گے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس کے نتائج مثبت ہوں گے۔ مصر اور امریکہ کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس میں کئی فریقوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، جن میں قطر، ترکیہ، اور دیگر علاقائی قوتیں شامل ہیں۔ تاہم روس نے وضاحت کی کہ ماسکو کو دعوت نہیں دی گئی اور اس لیے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہو رہا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اورحماس ایک جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں، جو کہ ٹرمپ پلان کے پہلے مرحلے کا حصہ ہے۔ اس معاہدے میں غزہ میں فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا، اور ایک عارضی عبوری حکومت کے قیام جیسے نکات شامل ہیں۔ یہ عبوری حکومت غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی نظام کو چلائے گی اور سیاسی رنگ سے پاک ہوگی۔
