واشنگٹن :امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے، اور اس موقع پر انہوں نے حماس کے اسلحے کے معاملے پر دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ ان کی حماس کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور تنظیم نے اپنے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “حماس کا غیر مسلح ہونا جلد ہوگا اور اگر ضرورت پڑی تو یہ عمل طاقت کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ اگر انہوں نے ہتھیار نہ پھینکے تو ہم خود ان سے چھین لیں گے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک بیان میں امریکی صدر نے لکھا کہ میں ابھی مشرقِ وسطیٰ کے دورے سے واپس آیا ہوں، یہ ایک شاندار اور تاریخی لمحہ تھا۔ لوگوں کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ انہوں نے بتایا کہ تمام 20 مغوی واپس لوٹ آئے ہیں اور وہ صحت مند ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک بھاری بوجھ تھا جو اتر گیا ہے، تاہم مشن ابھی مکمل نہیں ہوا کیونکہ تمام لاشیں واپس نہیں کی گئیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کا اعلان کیا لیکن اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
ایک سینئر ذریعے نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو بتایا کہ حماس نے ثالثوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب دس بجے اسرائیل کو چار نئی لاشیں واپس کرے گی۔ دوسری جانب حماس کے ترجمان حازم قاسم نے العربیہ اور الحدث سے گفتگو میں کہا کہ تنظیم کے اسلحے کے معاملے کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ معاملہ پیچیدہ ضرور ہے مگر اسے قومی اتفاقِ رائے کے دائرے میں حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کے اپنے دفاع کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے انتظامات ممکن ہیں جو علاقے کے امن و استحکام کو یقینی بنائیں۔ حماس نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ بعض اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی بازیابی میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ان میں سے کچھ کی قبریں نامعلوم مقامات پر ہیں۔ اب تک اسرائیل کو چار مغویوں کی لاشیں واپس ملی ہیں جب کہ مجموعی طور پر سات اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں قید کیے گئے 28 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، تمام لاشیں واپس نہ کیے جانے پر اسرائیل نے رفح بارڈر بند کر دیا ہے۔ اگر بدھ کے روز مزید چار لاشیں منتقل کر دی گئیں تو اب بھی 20 لاشیں غزہ میں باقی رہ جائیں گی۔ مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا یہ اعلان مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر حماس واقعی غیر مسلح ہونے پر راضی ہو گئی تو یہ غزہ میں دیرپا امن کی بنیاد بن سکتا ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہوئی تو صورتحال دوبارہ کشیدگی کی طرف جا سکتی ہے
