اسلام آباد — پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاقی حکومت نے دو طرفہ معاشی تعاون کو نئی جہت دینے اور اسے دفاعی شراکت داری کے ہم پلہ سطح پر مستحکم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ۱۸ رکنی اقتصادی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ یہ کمیٹی دراصل پاکستان-سعودی اقتصادی شراکت (Pakistan-Saudi Arabia Economic Partnership Framework) کے تحت دونوں ممالک کے درمیان پائیدار، نتیجہ خیز اور ادارہ جاتی مذاکرات کو منظم کرے گی۔
یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ۳ اکتوبر کو ہونے والے ایک خصوصی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس میں پاکستان کی اقتصادی ترجیحات، سعودی سرمایہ کاری کے امکانات اور خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے مالیاتی ماحول پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے اس اجلاس میں واضح ہدایت کی کہ پاکستان کو اب دفاعی شراکت داری سے آگے بڑھتے ہوئے معاشی محاذ پر ایک جامع اور عملی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی، تاکہ سعودی عرب کے ساتھ دیرپا اور کثیرالجہتی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کمیٹی میں متعدد کلیدی وزارتوں اور اداروں کے اعلیٰ نمائندے شامل ہیں، جن میں وزارتِ خزانہ، وزارتِ معیشت، وزارتِ تجارت، وزارتِ توانائی، وزارتِ اطلاعاتِ ٹیکنالوجی، وزارتِ خوراک و تحفظ، وزارتِ مواصلات، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP)، اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) کے نمائندے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے اقتصادی مشیر اور تجارتی کونسلر کو بھی اس عمل میں براہِ راست شامل کیا گیا ہے تاکہ زمینی حقائق پر مبنی مذاکرات ممکن بن سکیں۔
کمیٹی کی مشترکہ صدارت سینیٹر مسادق ملک (وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی) اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) سرفراز احمد (نیشنل کوآرڈینیٹر، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) کے سپرد کی گئی ہے۔ یہ جوڑی پاکستان-سعودی تعلقات میں ایک نئی "ٹیکنیکل سفارتکاری” کا نمونہ سمجھی جا رہی ہے، جو پالیسی سازی اور عملی نفاذ کے درمیان خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ کمیٹی کے تمام ارکان ۶ اکتوبر سے اپنی موجودگی یقینی بنائیں تاکہ مذاکرات کے پہلے مرحلے کو فوراً شروع کیا جا سکے۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سعودی عرب سے متعلق تمام سفری منظوریوں کو ایک گھنٹے کے اندر مکمل کیا جائے تاکہ کسی قسم کی تاخیر یا بیوروکریسی کی رکاوٹ مذاکرات کی رفتار پر اثر انداز نہ ہو۔
ذرائع کے مطابق، اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ ہر پندرہ دن بعد اپنی پیش رفت کی رپورٹ براہِ راست وزیراعظم کو پیش کرے۔ کمیٹی کو مزید اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ مخصوص موضوعات پر ماہرینِ معیشت یا تکنیکی ماہرین کو بطور معاون رکن شامل کر سکتی ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان آنے والے مذاکرات میں سعودی عرب کے ساتھ تیل، توانائی، زراعت، فوڈ سکیورٹی اور ماحولیاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے "بائے بیک” ماڈل پر بات چیت کرے گا۔ اس ماڈل کے تحت سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اندر بڑے صنعتی اور زرعی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے بدلے طویل مدتی فوائد اور شیئرز کی پیشکش کی جائے گی۔
اسی طرح، ایک اور اہم معاملہ جو مذاکرات کا حصہ ہوگا وہ گوادر یا حب کے مقام پر زیرِ التواء سعودی آئل ریفائنری منصوبہ ہے، جو گزشتہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو سعودی عرب کے ساتھ نئے معاشی پیکج کے تحت فعال کیا جائے تاکہ پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکے بلکہ خطے میں آئل پراسیسنگ کا ایک مرکزی مرکز بن سکے۔
ذرائع نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اکتوبر کے آخر میں سعودی عرب کا سرکاری دورہ کریں گے، جس کے دوران وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے براہِ راست ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں متعدد بڑے اقتصادی معاہدے. جن میں سرمایہ کاری، صنعتی شراکت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مزدوروں کے تحفظ سے متعلق نکات شامل ہوں گے — پر دستخط متوقع ہیں۔
یہ تمام اقدامات دراصل **۱۷ ستمبر ۲۰۲۵ کو ریاض میں طے پانے والے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے (Strategic Mutual Defence Agreement) کی توسیع سمجھے جا رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے یہ عہد کیا تھا کہ کسی ایک پر ہونے والی جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ عالمی تجزیہ کاروں نے اسے "عرب-ایشین منی نیٹو” قرار دیا تھا، اور اب معاشی میدان میں بڑھتا ہوا اشتراک اس اتحاد کو مزید وسعت دے رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان-سعودی تعلقات کا یہ نیا باب صرف دفاع یا سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل اکانومی، قابلِ تجدید توانائی اور خطے کے معاشی استحکام کے لیے ایک جامع فریم ورک کی بنیاد رکھے گا۔ سعودی عرب کے وژن ۲۰۳۰ کے تناظر میں پاکستان کو "علاقائی صنعتی پارٹنر” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان کی قیادت اسے اپنی اقتصادی بحالی کا نیا راستہ سمجھ رہی ہے۔
