گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی آج پشاور پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ صوبے کے نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لیں گے۔ ذرائع کے مطابق حلف برداری کی تقریب شام کے اوقات میں گورنر ہاؤس پشاور میں منعقد ہوگی، جس کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی جانب سے حلف لینے سے انکار کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں، اور ان کا مؤقف ابتدا ہی سے یہی رہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے اور آئینی تقاضوں پر من و عن عمل کریں گے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے معاملے میں متعدد ابہامات موجود تھے۔ ان کے بقول پہلا استعفیٰ تاخیر سے پہنچا جبکہ دوسرا استعفیٰ پہلے موصول ہوگیا، جس سے ایک انتظامی ابہام پیدا ہوا۔ تاہم، اب چونکہ اسمبلی نے سہیل آفریدی کو 90 ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب کر لیا ہے، اس لیے وہ جلد ہی حلف لیں گے تاکہ صوبے میں آئینی تسلسل برقرار رہے۔
اس موقع پر فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے خصوصی درخواست کی تھی کہ وہ انہیں پشاور روانگی کے لیے سرکاری طیارہ فراہم کریں۔ گورنر نے کہا کہ چونکہ گورنر ہاؤس کے پاس کوئی ذاتی جہاز نہیں ہوتا، اس لیے سندھ حکومت نے تعاون کی پیشکش کی ہے۔
دوسری جانب، بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک تقریب کے دوران فیصل کریم کنڈی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’گورنر صاحب، آپ کو فوری طور پر پشاور جانا چاہیے تاکہ عدالت کے احکامات پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔‘‘ بلاول نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت دی کہ وہ گورنر کو اپنا جہاز فراہم کریں تاکہ وہ خیبرپختونخوا پہنچ کر حلف برداری کے عمل کو ممکن بنا سکیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کے فوراً بعد فیصل کریم کنڈی نے اپنی روانگی کی تیاری مکمل کی اور شام کو پشاور روانہ ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق گورنر کی یہ روانگی ایک سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے کیونکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں تاخیر سے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔
عدالتی پہلو سے دیکھا جائے تو پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں گورنر خیبرپختونخوا کو حکم دیا گیا کہ وہ 15 اکتوبر شام 4 بجے تک نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لیں۔ عدالت نے مزید ہدایت کی کہ اگر گورنر کسی بھی وجہ سے ایسا نہ کر سکیں تو اسپیکر صوبائی اسمبلی کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ حلف برداری کا عمل مکمل کریں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ صوبائی سطح پر آئینی عمل کو بحال کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ علی امین گنڈاپور کے اچانک استعفے کے بعد صوبائی حکومت میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ گنڈاپور نے گزشتہ ہفتے پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر عہدہ چھوڑ دیا تھا، تاہم ان کا استعفیٰ گورنر کی جانب سے باضابطہ طور پر منظور نہیں کیا گیا تھا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے چند روز قبل سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ منتخب کر لیا تھا، مگر اپوزیشن جماعتوں نے اس انتخاب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا اور عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ اپوزیشن کے مؤقف کے مطابق علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور کیے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طور پر درست نہیں۔ تاہم عدالتی فیصلے کے بعد یہ معاملہ وقتی طور پر حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے میں سیاسی استحکام اور آئینی عمل کی تکمیل ان کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں عدالتی فیصلے کا احترام کرتا ہوں اور آج ہی اپنے آئینی فرائض ادا کروں گا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’بلاول بھٹو سے ہونے والی نجی گفتگو میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی جا سکتی۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ پیش رفت نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ وفاقی سطح پر بھی سیاسی ہم آہنگی کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی اتحادی حکومت میں آئینی نظم و نسق کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ صوبے میں حکومت کی تشکیل مکمل ہونے سے ترقیاتی منصوبوں اور انتظامی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر گورنر آج شام حلف برداری کا عمل مکمل کر لیتے ہیں تو خیبرپختونخوا میں کئی ہفتوں سے جاری سیاسی کشیدگی ختم ہو جائے گی اور صوبے کی سیاسی فضا نسبتاً مستحکم ہو جائے گی۔
یہ پیش رفت پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ایک علامتی اثر ڈال سکتی ہے، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئینی ادارے اب عملدرآمد کے مرحلے میں زیادہ متحرک اور بااختیار کردار ادا کر رہے ہیں۔
