اسلام آباد کی سیاسی فضا ایک بار پھر سرگرم ہو گئی ہے کیونکہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان آج ایک اہم ملاقات طے پا گئی ہے۔ اس ملاقات کو نہ صرف اتحادی جماعتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے وفاقی سطح پر قائم مخلوط حکومت کے اندر اعتماد کی بحالی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق، یہ ملاقات آج شام تقریباً چار بجے وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچیں گے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چند اہم اراکین بھی ملاقات میں شریک ہوں گے۔ تاہم ابتدائی مرحلے میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان ون ٹو ون نشست متوقع ہے، جس کے بعد وفود کی سطح پر گفتگو ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کا مرکزی ایجنڈا پنجاب حکومت کے ان بیانات پر مشتمل ہے جو حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف سامنے آئے ہیں اور جنہوں نے اتحادی جماعتوں کے درمیان تلخی کو ہوا دی ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ دونوں جماعتیں مستقبل میں ایسے بیانات سے کس طرح گریز کر سکتی ہیں تاکہ حکومت کے اتحاد کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے حال ہی میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کو کراچی طلب کر کے انہیں ہدایت دی تھی کہ وہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ زرداری نے واضح کیا تھا کہ اگر اتحادی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے تعاون کی راہ اپنائیں، تو وفاقی حکومت کی پوزیشن مزید مضبوط ہوسکتی ہے۔
اس سے قبل 9 اکتوبر کو نوابشاہ میں صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی تھی، جس میں دونوں جماعتوں کے درمیان جاری بیان بازی کو روکنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس موقع پر فریقین نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف عوامی محاذ آرائی کے بجائے بات چیت کے ذریعے اختلافات حل کریں گے۔
دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب پیپلز پارٹی کی قیادت نے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی اور مطالبہ کیا کہ متاثرین کی مالی معاونت کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کیا جائے۔ تاہم اس تجویز کو پنجاب حکومت کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جس نے اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا۔
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ پنجاب حکومت دراصل پیپلز پارٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو نشانہ بنا رہی ہے تاکہ ایسا تاثر پیدا کیا جائے کہ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رویہ جاری رہا تو وفاقی سطح پر اتحاد کمزور ہوسکتا ہے۔
اس بیان پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھرپور ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں عوام کی خدمت کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور یہ تاثر غلط ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ قوم کو مستقل امداد کے بجائے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور "بھیک مانگنے کا دور اب ختم ہونا چاہیے”۔
یہ کشیدگی پارلیمان میں بھی جھلکی۔ 30 ستمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس کے دوران، پیپلز پارٹی کے اراکین نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان کی جماعت وزارتوں یا عہدوں کی خواہش مند نہیں بلکہ صرف عزت و احترام چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی رویہ برقرار رہا تو پیپلز پارٹی کے لیے حکومتی بینچوں پر بیٹھنا مشکل ہو جائے گا، اور ممکن ہے وہ اپوزیشن کی صفوں میں جا بیٹھیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آج ہونے والی ملاقات ان تمام واقعات کے پس منظر میں ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ نہ صرف موجودہ حکومت کے اتحاد کو مستحکم کرے گا بلکہ مستقبل میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بہتر تعاون کی راہ بھی ہموار کرے گا۔
ذرائع کے مطابق، ملاقات میں حکومت کی آئندہ سیاسی حکمتِ عملی، ترقیاتی منصوبوں میں اشتراک، اور مرکز و صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم جیسے معاملات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ ساتھ ہی، دونوں رہنما یہ طے کریں گے کہ بیانات اور الزامات کے بجائے پارلیمانی فورمز کو استعمال کرتے ہوئے اختلافات کے حل کی نئی مثال قائم کی جائے۔
سیاسی حلقے اس ملاقات کو حکومت کی اندرونی صفوں میں جاری بے چینی کو ختم کرنے کی ایک آخری کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ کامیاب رہا، تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر فعال اتحادی کے طور پر سامنے آئے اور پنجاب حکومت کے ساتھ سیاسی ماحول میں نرمی پیدا ہو۔ تاہم، اگر بات چیت میں پیش رفت نہ ہوئی تو موجودہ سیاسی اتحاد میں مزید دراڑیں پڑنے کا خدشہ موجود ہے۔
آج کی ملاقات کو صرف ایک سیاسی رسمی کاروائی نہیں بلکہ ایک آزمائش سمجھا جا رہا ہے—یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وفاقی حکومت واقعی اندرونی اختلافات پر قابو پا سکتی ہے یا پھر یہ تنازعہ مستقبل میں اس کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔
