لاہور:پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی کابینہ نے مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس حوالے سے سفارشات پر مبنی مراسلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب غزہ میں جنگ بندی ہو چکی ہے، ایسے وقت میں کسی مذہبی جماعت کے احتجاج کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے نام پر سڑکیں اور راستے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ حکومت کا اولین فریضہ امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔
عظمٰی بخاری نے بتایا کہ مذہبی جماعت سے متعدد بار مذاکرات کیے گئے، مگر ان کے مطالبات ذاتی مفاد پر مبنی تھے، یہاں تک کہ انہوں نے مذہبی تشدد میں ملوث ملزمان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران پولیس پر شدید حملے کیے گئے، جس میں ایک ایس ایچ او کو 26 گولیاں لگیں، 69 اہلکار مستقل معذور ہو گئے، جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ ہزار سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پولیس یا پنجاب حکومت کی گاڑیاں غزہ کی آزادی میں رکاوٹ نہیں تھیں، لیکن انہیں نشانہ بنا کر ریاستی اداروں پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جمعے کی نماز کے بعد ٹی ایل پی کی احتجاجی کال کو عوام اور تاجروں نے مکمل طور پر مسترد کر دیا، جس سے واضح ہو گیا کہ عوام امن اور استحکام چاہتے ہیں، افراتفری نہیں۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ روز بھی انتہا پسند عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے چند روز قبل لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، تاہم مریدکے کے مقام پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد شرکاء کو منتشر کر دیا گیا۔
