ریاض میں ہونے والے گلوبل سائبر سیکیورٹی فورم (GCF) کے حالیہ اجلاس میں ایک انتہائی اہم عالمی اقدام کا اعلان کیا گیا جس نے ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے نئی جہت متعارف کرائی ہے۔ یہ پیش رفت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی سرپرستی میں سامنے آئی، جن کی قیادت میں ’’Child Protection in Cyberspace Index‘‘ کے نام سے ایک جامع عالمی انڈیکس متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ اقدام دراصل سعودی عرب کے اس وسیع تر وژن کا حصہ ہے جو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر سائبر سیکیورٹی، انسانی تحفظ، اور ڈیجیٹل بہبود کے فروغ پر مبنی ہے۔
اس انڈیکس کے ذریعے دنیا بھر میں بچوں کو درپیش ڈیجیٹل خطرات کی نشاندہی، پیمائش، اور تدارک کے لیے ایک منظم اور قابلِ اعتماد فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے، تاکہ ہر ملک اپنے حفاظتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے درست سمت میں پیش رفت کر سکے۔
یہ انڈیکس دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا جامع اقدام ہے جو بچوں کے لیے ڈیجیٹل ماحول کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کی سطح کو باقاعدہ پیمائش کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مقصد حکومتوں، اداروں، تعلیمی تنظیموں اور والدین کے درمیان رابطے کو مضبوط کرنا اور ایک عالمی سطح پر مربوط مکالمہ قائم کرنا ہے تاکہ آن لائن بلیک میلنگ، سائبر بُلنگ، جعلی پروفائلز، نقصان دہ مواد، اور ڈیجیٹل استحصال جیسے خطرات کے تدارک کے لیے عملی اور دیرپا پالیسیاں بنائی جا سکیں۔ یہ انڈیکس نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ ایک رہنمائی فراہم کرنے والا نظام بھی ہے جو ممالک کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ بچوں کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے ان کے اقدامات کتنے مؤثر ہیں اور کہاں بہتری کی گنجائش باقی ہے۔
اس منصوبے کے تحت دنیا کے مختلف خطوں میں 150 ملین سے زائد بچوں تک حفاظتی اقدامات پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی تقریباً 50 لاکھ والدین، سرپرستوں اور اساتذہ کو تربیت دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ جدید ڈیجیٹل خطرات کی نوعیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
اسی سلسلے میں ڈیجیٹل تعلیم اور سائبر سیکیورٹی کی آگاہی تقریباً 1.6 کروڑ افراد تک پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا جامع اقدام ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ بالغوں کو بھی ڈیجیٹل ماحول میں ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف بچوں کے لیے ایک ایسا محفوظ آن لائن ماحول تخلیق کرنا ہے جس میں وہ سیکھنے، کھیلنے اور رابطہ کرنے کی آزادی رکھتے ہوئے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
سعودی ماہرین کے مطابق یہ انڈیکس انسانی بنیادوں پر قائم ایک ایسا فریم ورک ہے جو سرحدوں سے بالاتر ہو کر دنیا بھر کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا۔ ماہرینِ تعلیم اور نفسیات کے نزدیک بچوں کی زندگی میں انٹرنیٹ کا کردار اب بنیادی ہو چکا ہے، اور اس ڈیجیٹل حقیقت نے معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
حالیہ عالمی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں 70 فیصد سے زائد بچے کسی نہ کسی صورت میں آن لائن خطرات یا نقصان دہ مواد کا سامنا کرتے ہیں، جبکہ سعودی عرب میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کی شرح 90 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کا تحفظ محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی ضرورت بن چکا ہے۔
یہ انڈیکس اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں بچوں کے آن لائن استحصال، ڈیجیٹل لت، اور نفسیاتی دباؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ متعدد تحقیقی مطالعات کے مطابق، بچے اپنی نوعمری کے ابتدائی مرحلے میں آن لائن تشدد، نفرت انگیز مواد، اور جعلی خبروں جیسے مسائل سے متاثر ہو رہے ہیں، جن کے اثرات ان کی شخصیت، تعلیم، اور اعتماد پر گہرے پڑ رہے ہیں۔
اسی تناظر میں سعودی عرب نے عالمی سطح پر یہ قیادت سنبھالی ہے کہ سائبر سیکیورٹی کے میدان میں انسانی اقدار کو مرکزیت دی جائے۔ اس انڈیکس کے ذریعے ممالک کو نہ صرف موجودہ خطرات کی نشاندہی میں مدد ملے گی بلکہ وہ اپنی پالیسیاں اس طرح ترتیب دے سکیں گے کہ بچوں کے لیے انٹرنیٹ ایک محفوظ اور مثبت پلیٹ فارم بن سکے۔
ماہرین کے مطابق سعودی عرب کی نیشنل سائبر سیکیورٹی اتھارٹی، وزارتِ تعلیم، اور دیگر ادارے پہلے ہی عوامی آگاہی کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، تاہم بچوں اور والدین کے درمیان ٹیکنالوجی کے فاصلوں کو کم کرنا اب بھی ایک چیلنج ہے۔ نئے انڈیکس کے اجرا کے ساتھ یہ امید کی جا رہی ہے کہ والدین، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کے درمیان ایک مربوط مکالمہ قائم ہو گا جو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر پائیدار تبدیلی لا سکے گا۔ یہ انڈیکس بچوں کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں، تعلیمی مواد کی تیاری، اور سرکاری سطح پر آگاہی مہمات کے لیے بھی بنیاد فراہم کرے گا۔
عصام القبیسی جیسے ماہرین نے اس منصوبے کو ’’انسانی اور عالمی سطح کا سعودی اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق چار میں سے تین بچے ہر سال نقصان دہ مواد سے کسی نہ کسی سطح پر متاثر ہوتے ہیں، اس لیے اس نوعیت کے اقدامات فوری اور ناگزیر ہیں۔ انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ سائبر سیکیورٹی کے بارے میں آگاہی کے بغیر جدید معاشرہ مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتا۔ انڈیکس کا مقصد صرف پیمائش نہیں بلکہ اصلاح اور عملی اقدام کو ممکن بنانا ہے تاکہ بچوں کو ڈیجیٹل تشدد، نفسیاتی دباؤ، اور سماجی تنہائی جیسے اثرات سے بچایا جا سکے۔
سعودی عرب کے ماہرین اور سرکاری مشیران کا کہنا ہے کہ خاندان سائبر تحفظ کی پہلی دفاعی دیوار ہیں۔ ان کے بقول اگر والدین بچوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں، ان کے آن لائن معمولات پر نرمی سے نظر رکھیں، اور سرکاری ہیلپ لائنز جیسے “کلنا أمن” یا “116111” سے رابطہ کریں تو بچوں کو ڈیجیٹل خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام صرف ایک قومی پالیسی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ایک طرزِ فکر کی تبدیلی ہے جو سعودی عرب کے وژن 2030 کے سماجی اور ٹیکنالوجی اہداف سے ہم آہنگ ہے۔
ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ انڈیکس مستقبل کے لیے ایک ایسا سنگِ میل ہے جو دنیا بھر میں بچوں کے ڈیجیٹل تحفظ کے نئے معیارات متعین کرے گا۔ سعودی عرب کی قیادت نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی تحفظ کو ترجیح دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس انڈیکس کی روح کے مطابق اشتراک عمل جاری رکھا، تو آنے والے برسوں میں دنیا کے لاکھوں بچے ایک زیادہ محفوظ، بااعتماد اور انسانی اقدار پر مبنی ڈیجیٹل دنیا میں سانس لیں گے۔
