یمن، جو گذشتہ ایک دہائی سے خانہ جنگی اور انسانی بحران کے شدید ترین دور سے گزر رہا ہے، ایک بار پھر ہیضے جیسی مہلک وبا کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں متاثرین، تباہ شدہ اسپتال، آلودہ پانی، اور کمزور صفائی کے نظام نے اس بیماری کے خطرے کو نئی شدت دی ہے۔ ایسے نازک وقت میں سعودی عرب نے انسانیت پر مبنی ایک بڑے اقدام کے تحت یمن میں ہیضے سے نمٹنے کے لیے فوری ردِعمل کے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔
یہ منصوبہ دراصل خادمِ حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں قائم کنگ سلمان ہیومینیٹیرین اینڈ ریلیف سینٹر (KSrelief) کے زیرِ اہتمام شروع کیا گیا ہے، جو گزشتہ برسوں سے دنیا بھر میں انسانی خدمت کے سب سے مؤثر اداروں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ منصوبہ یمن کے چار اہم صوبوں — عدن، حضرموت، حجہ اور صعدہ — میں نافذ کیا جا رہا ہے، جہاں زمینی اور فضائی بندرگاہوں پر مسافروں کی طبی جانچ کے لیے ٹیمیں تعینات کی جا رہی ہیں۔ ان ٹیموں کا مقصد صرف متاثرہ مریضوں کا علاج نہیں بلکہ وبا کے ممکنہ پھیلاؤ کو سرحدوں کے پار روکنا بھی ہے، تاکہ یہ مرض پڑوسی ممالک تک منتقل نہ ہو۔ اس منصوبے سے 1,150,000 سے زائد افراد کو براہِ راست فائدہ پہنچنے کی امید ہے، جن میں بچے، بوڑھے، خواتین اور جنگ زدہ علاقوں کے بے گھر شہری شامل ہیں۔
اس منصوبے میں ری ہائیڈریشن محلول، انٹراوینس فلوئڈز، اینٹی بایوٹکس، جراثیم کش مواد، ماسک، دستانے، حفاظتی لباس اور دیگر ضروری طبی سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ہیضے کے علاج کے مراکز میں بستروں کی تعداد بڑھانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے تاکہ ہنگامی حالات میں زیادہ مریضوں کو داخل کیا جا سکے۔
گزشتہ چند ماہ میں ہیضے کی وبا نے خاص طور پر جنوبی یمن کے شہروں میں خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔ عدن میں ہیلتھ مراکز مریضوں سے بھر گئے ہیں، اور کئی علاقوں میں صاف پانی کی قلت کی وجہ سے عوام کو کھلے نالوں یا آلودہ ذرائع سے پانی پینا پڑ رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، 2025 کے آغاز سے اب تک یمن میں 250,000 کے قریب مشتبہ ہیضے کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 860 سے زائد افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا مظہر ہیں کہ عالمی سطح پر ہونے والی ہیضے کی اموات میں سب سے زیادہ حصہ یمن کا ہے۔
یمن میں ہیضے کی وبا دراصل 2016 میں خانہ جنگی کے بڑھنے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، اور تب سے یہ وقفے وقفے سے دوبارہ سر اٹھاتی رہی ہے۔ انفراسٹرکچر کی تباہی، اسپتالوں کا ناکارہ ہونا، اور ویکسین یا صاف پانی کی عدم دستیابی نے اس وبا کو جڑ سے ختم ہونے نہیں دیا۔
جنگ کی وجہ سے صفائی کے نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے، جس کے نتیجے میں سیوریج کا پانی پینے کے پانی کے ذرائع میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس سے ہیضے کے جراثیم تیزی سے پھیلتے ہیں۔
سعودی عرب کا یہ اقدام محض ایک وقتی طبی امداد نہیں بلکہ ایک جامع حکمتِ عملی ہے، جو صحت، صفائی اور سماجی آگاہی کے تین بنیادی ستونوں پر مبنی ہے۔ KSrelief کے مطابق، اس منصوبے کے تحت نہ صرف ادویات اور طبی عملہ فراہم کیا جائے گا بلکہ مقامی آبادی کو بیماری سے بچاؤ کے اصولوں سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی مہمات، اسکولوں اور مساجد میں آگاہی لیکچرز، اور سماجی میڈیا پر عوامی مہمات چلانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
مزید برآں، یمن کے بعض علاقوں میں سعودی امدادی اداروں نے ہنگامی واٹر فلٹریشن یونٹس اور عارضی واٹر ٹینکس بھی نصب کیے ہیں تاکہ صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ یہ اقدام خاص طور پر ان دیہاتی علاقوں میں کیا گیا ہے جہاں بارش یا سیلاب کے بعد گندے پانی کے ذخائر بیماری کے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
اس منصوبے کا ایک اور پہلو علاقائی تعاون ہے۔ خلیجی ممالک کے درمیان صحت عامہ کے تحفظ کے لیے یہ ماڈل مستقبل میں ایک مثال کے طور پر کام کرے گا۔ سعودی عرب نے عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ، اور یونیسف کے ساتھ بھی قریبی تعاون کیا ہے تاکہ فنڈنگ، افرادی قوت، اور تکنیکی سہولتیں ایک مربوط نظام کے تحت کام کر سکیں۔
KSrelief کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، “یمن میں جاری انسانی بحران صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی تشویش کا باعث ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی ذمہ داری ناگزیر ہے۔”
عالمی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 4 ملین افراد ہیضے کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ کے قریب اپنی جان کھو دیتے ہیں۔ ان کیسز میں اکثریت کم آمدنی والے ممالک کی ہے، جہاں صاف پانی اور صفائی کے نظام ناکافی ہیں۔ یمن کا شمار ان ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہریوں کو پانی کے لیے میلوں دور سفر کرنا پڑتا ہے، اور اکثر یہی پانی بیماریوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ انسانی خدمت مذہب اور قوم سے بالاتر ہے۔ اسی جذبے کے تحت سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں صرف یمن میں ہی نہیں بلکہ شام، سوڈان، پاکستان، اور افریقی ممالک میں بھی درجنوں صحت عامہ اور ریلیف منصوبے شروع کیے ہیں۔ KSrelief کے اعداد و شمار کے مطابق، اس ادارے نے اب تک 100 سے زائد ممالک میں 2,500 سے زیادہ انسانی منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 6 بلین امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
یمن میں اس منصوبے کا نفاذ ایک طویل مدتی وژن کا حصہ بھی ہے، جس کا مقصد ملک کے تباہ شدہ صحت نظام کی بحالی میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس کے تحت مقامی ڈاکٹرز اور نرسوں کی تربیت، اسپتالوں کی مرمت، اور نئی لیبارٹریز کی تعمیر جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق، اگر یہ منصوبہ کامیابی سے نافذ ہو جاتا ہے تو نہ صرف یمن بلکہ پورے خطے میں ہیضے کے پھیلاؤ میں واضح کمی ممکن ہو گی۔ ایک ماہر نے کہا، “یہ قدم اس بات کی علامت ہے کہ انسانی بحران کا جواب بندوقوں سے نہیں بلکہ انسانیت اور تعاون سے دیا جا سکتا ہے۔”
یہ منصوبہ سعودی وژن 2030 کے اُس جزو سے بھی ہم آہنگ ہے جو انسانی فلاح اور عالمی صحت کے فروغ پر مبنی ہے۔ سعودی حکومت کی پالیسی ہے کہ مملکت نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا بھر کے محتاج طبقات کے لیے انسانی خدمت میں پیش پیش رہے۔
آخر میں، اس منصوبے کی کامیابی کے لیے سب سے بڑی ضرورت عوامی آگاہی اور بین الاقوامی تعاون کی ہے۔ اگر مقامی آبادی کو صحت کے بنیادی اصولوں سے روشناس کرایا جائے، صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور عالمی برادری اس عمل میں اپنا حصہ ڈالے، تو یمن میں ایک صحت مند، محفوظ اور پائیدار مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔
