اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی مشہور مہم جو، مصنفہ اور بی بی سی پریزنٹر ایلس موریسن اس وقت سعودی عرب کے طول و عرض میں اپنی تاریخی سفر کے آخری مرحلے پر ہیں، ایک ایسا کارنامہ جو انہیں سلطنت کی شمالی سرحد سے جنوبی کنارے تک مکمل طور پر پیدل چلنے والی پہلی شخص کے طور پر تاریخ میں درج کر دے گا۔
یہ سفر کسی عام سیاحت یا مہم نہیں بلکہ ثقافت، فطرت، اور انسانی عزم کا امتزاج ہے۔ ایلس نے اپنی دو اونٹنیوں جوسی اور لولو کے ساتھ مدینہ منورہ سے اپنی آخری مہم کا آغاز 10 اکتوبر کو کیا۔ یہ مرحلہ تقریباً 1,370 کلومیٹر پر مشتمل ہے جو انہیں نجران تک لے جائے گا، جہاں ان کی یہ غیر معمولی مہم 17 دسمبر کو مکمل ہونے کی امید ہے۔ یہ مہم مجموعی طور پر 2,300 کلومیٹر طویل ہے، جس کا پہلا حصہ وہ فروری 2025 میں مکمل کر چکی ہیں جب وہ اردنی سرحد سے مدینہ تک 930 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی تھیں۔
ایلس موریسن کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً 21 کلومیٹر یعنی تقریباً آدھی میراتھن کے برابر فاصلہ طے کریں گی۔ اس طویل راستے میں وہ 70 دنوں میں اپنی منزل تک پہنچنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جن میں 63 دن مسلسل پیدل چلنا اور سات دن آرام و تحقیق کے لیے مخصوص ہوں گے۔ یہ راستہ سعودی عرب کے مغربی حصے کے ویران مگر دلکش مناظر سے گزرتا ہے، جہاں فطرت کی خاموشی اور صحرا کی وسعت انسان کے اندر ایک عجیب احساس پیدا کرتی ہے۔
ایلس نے بتایا کہ سعودی عرب میں عورت ہونے نے انہیں ایک منفرد مقام دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں، "یہاں عورت ہونا میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے، کیونکہ میں مردوں اور عورتوں دونوں سے بات کر سکتی ہوں اور ان خواتین کی کہانیاں سن سکتی ہوں جو عام طور پر دنیا کے سامنے نہیں آتیں۔” ان کے مطابق، سعودی عرب میں خواتین کی زندگیوں میں ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب برپا ہو رہا ہے، جہاں خواتین اپنے مستقبل کی نئی سمتیں طے کر رہی ہیں۔
ایلس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماضی میں لوگ مختلف ذرائع سے سلطنت کو پار کرتے رہے ہیں، لیکن وہ پہلی شخص ہوں گی جو مکمل طور پر پیدل یہ سفر طے کریں گی، بغیر کسی سواری یا پہیوں کے۔ ان کے مطابق، ابھی تک نہ انگریزی اور نہ ہی عربی زبان میں کسی کے اس طرح کے مکمل سفر کا ریکارڈ موجود ہے۔
ان کی ٹیم اس مہم کے دوران رات کے وقت لگائے گئے خصوصی کیمروں کی مدد سے جنگلی حیات کا مشاہدہ بھی کرے گی تاکہ ہرن، بھیڑیے، لکڑبگھے اور ممکنہ طور پر نایاب عربی چیتے کی موجودگی کا دستاویزی ثبوت حاصل کیا جا سکے۔ اسی کے ساتھ وہ صحرا کی گہرائیوں میں موجود قدیم نقوش، چٹانی تحریروں، اور پرانے تجارتی راستوں کے نشانات کی تلاش میں بھی رہیں گے۔
یہ راستہ عرب کے قدیم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک "درب الفیل” یعنی ہاتھیوں کی شاہراہ” سے گزرتا ہے، جو کبھی قافلوں اور تاجروں کا مرکز رہا۔ سفر کے دوران ایلس مقامی قبائل اور ثقافتی گروہوں سے بھی ملاقات کریں گی، جن میں عسیر کے مشہور "فلاور مین” بھی شامل ہیں جو اپنے خوشبودار پھولوں کے تاجوں کے لیے مشہور ہیں۔ وہ ان روایات اور قصوں کو بھی ریکارڈ کریں گی جو نسل در نسل منتقل ہو کر آج بھی عربی ورثے کی جھلک دکھاتے ہیں۔
ایلس کے بقول، انہیں سب سے زیادہ جو چیز پرجوش کرتی ہے وہ ہے فطرت کے عین وسط میں رہنا — وہ کہتی ہیں کہ دن کے آغاز سے پہلے چلنا، دوپہر کی گرمی سے بچنا، اور پانی کی کمی جیسے چیلنجز سے نمٹنا ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ وہ مزاحیہ انداز میں کہتی ہیں کہ انہیں صرف یہی امید ہے کہ اس بار وہ ان چھالوں سے بچ جائیں جو انہیں پہلی مہم کے دوران لگے تھے۔
ان کا قافلہ مکمل طور پر خودمختار انداز میں سفر کر رہا ہے، جہاں صرف ایک گاڑی ان کے لیے پانی اور ضروری سامان پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔ ہر رات وہ کھلے آسمان تلے کیمپ لگاتی ہیں، جس سے ان کا یہ سفر ایک روحانی اور فطری تجربہ بن جاتا ہے۔
ایلس موریسن کی یہ مہم نہ صرف ذاتی عزم کی علامت ہے بلکہ سعودی عرب کے بدلتے ہوئے سماجی و ثقافتی منظرنامے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ملک اب اپنے لوگوں اور دنیا کے سامنے ایک نئے انداز میں خود کو پیش کر رہا ہے — ایک ایسا عرب جہاں روایت اور جدت ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھ رہی ہے۔
