Qassim خطہ اس سال انار کی فصل میں بے مثال ترقی دیکھ رہا ہے۔ کسان اب ایسے موسم کا موسم برداشت کر رہے ہیں جو معیار میں شاندار اور پیداوار میں زبردست ہے۔ مختلف اضلاع اور دیہاتوں کی سو سے زائد فرموں نے مل کر دس ہزار ٹن سے زائد پیداوار فرسود کردی ہے، جو اس موسم کی اہمیت اور اس علاقے میں اس پھل کی معاشی اہمیت کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت ہے۔
مقامی کسان یوسف الریثی نے بتایا کہ اگرچہ دنیا بھر میں انار کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، مملکت میں مربوطاً گیارہ مختلف اقسام ہیں، اور ہر خطہ اپنی مخصوص قسم کے لیے مشہور ہے۔ یوسف نے بیان کیا کہ انار کی دیکھ بھال کا موسم مارچ سے شروع ہو کر ستمبر تک جاری رہتا ہے، اور کٹائی کی سرگرمیاں دسمبر کے اوائل تک پھیلی رہتی ہیں۔ فصل کی اچھی حالت برقرار رکھنے کے لیے گرمیوں میں مناسب آبپاشی، جراثیموں کا بروقت پتا لگانا، اور مؤثر کیڑوں سے تحفظ جیسی اصطلاحات کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
اگر ہم مملکت کی مجموعی انار کی پیداوار کو دیکھیں تو 37,000 ٹن سے زائد کی سطح تک پہنچ چکی ہے، جس میں قاسم، البہا اور دیگر حاملہ علاقوں کی شراکت نمایاں ہے۔ البہا اور قاسم کے علاقے خاص طور پر اس فصل کے لیے موزوں موسمی حالات کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں، اور مملکت کی قومی خوراکی تحفظ کی حکمتِ عملی میں ان کی شمولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
انار کی کاشت مکہ، عسیر، جوف اور البہا جیسے صوبوں میں بھی کی جاتی ہے، اور یہ فصل سعودی عرب کے زرعی تنوع کا ایک اہم جز ہے۔ البہا کی انار کو اس کی رنگت، ذائقہ اور معیار کے لحاظ سے خاص مقام حاصل ہے، جیسے کہ منگلاتی قسم جو سرخ، گلابی، یا ہلکے سبز رنگ کے اندرونی پردے کے امتزاج پر مبنی ہوتی ہے۔
انار کی فصل کا معاشی پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ اس کے بیج، رس اور چھال کی صنعت میں استعمال ہونے والے اجزاء چھوٹی صنعتوں اور غذائی مصنوعات بنانے والے طبقے کے لیے سرمایہ کاری کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انار کا رس، مربا، چھنا اور دیگر پراڈکٹس منڈیوں میں دفاتر بناتے ہیں اور کسانوں کو اضافی آمدنی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مملکت سرکاری ادارے اور زراعتی محکمے کسانوں کی تکنیکی معاونت، مالی ترغیبات اور مارکیٹنگ سہولتیں فراہم کرتے آ رہے ہیں، تاکہ پیداوار کو مزید بہتر بنایا جائے اور کسان اپنی محنت کا مناسب معاوضہ حاصل کریں۔
آگے بڑھتے ہوئے، ماہرین کو خطرہ اس بات کا ہے کہ موسمی تغیرات، مٹی کی نمکیات میں اضافہ اور پانی کی قلت انار کی پیداوار میں زوال کا باعث بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر البہا خطے میں جو نمکیاتی دباؤ آئندہ برسوں میں مٹی کو متاثر کر سکتا ہے، اس پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح موثر انتظامات اور جدید نشوونما تکنیکیں اپنائی جائیں تاکہ پیداوار کی کمی سے بچا جائے۔ محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر موجودہ طریقے جاری رہے تو موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں اگلے دہائیوں میں پیداوار تقریباً 24 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
موسمیاتی ماڈلنگ نے یہ بھی پیشگوئی کی ہے کہ پانی کے استعمال اور زمین کی نمکیت بڑھنے کے رجحانوں کے باعث البہا کا انار فصل متاثر ہو سکتی ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کیے جائیں۔ ایسے خطرات سے نمٹنے کے لیے بہتر آبپاشی کاری، متوازن غذائیت اور جدید زرعی طریقے متعارف کرانا ضروری قرار دیے جارہے ہیں۔
کسانوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ درخت کو 15 سے 20 سال کی عمر میں پختگی کا عروج ملتا ہے اور بعض درخت 70 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا، صحیح دیکھ بھال اور جدید منیجمنٹ اہمیت اختیار کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ مارکیٹ تک رسائی، ٹرانسپورٹ لاگت اور برآمدی مواقع بھی کسانوں کی آمدنی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں انار کی مقبولیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ان ټول پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، قاسم خطے میں انار کی کاشت نہ صرف زرعی لحاظ سے اہم ہے بلکہ یہ خطے کی اقتصادی قوت، کسانوں کی معاشی بہتری، اور مملکت کی خوراکی خود کفالت کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر سرکار، تعلیمی ادارے اور کسان مل کر آبپاشی، زمین کی افزائش اور جدید تحقیق کو ترجیح دیں، تو آنے والے دور میں قاسم کا انار فصل نہ صرف ملک میں بلکہ برآمدی سطح پر بھی مقام بنا سکتی ہے۔
