سعودی عرب کی معیشت تیزی سے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں تیل کے علاوہ دیگر شعبے ترقی کا بنیادی محور بن رہے ہیں۔ حالیہ مالیاتی جائزوں اور عالمی معاشی اداروں کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مملکت نے اپنی معیشت کو صرف تیل کی آمدنی پر انحصار سے نکال کر ایک متوازن اور پائیدار سمت میں گامزن کر دیا ہے۔
آنے والے پانچ سے دس سالوں میں غیر تیل معیشت کی سالانہ ترقی کی شرح 4.5 فیصد سے 5.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، جو سعودی وژن 2030 کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔
یہ پیش رفت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ سعودی حکومت نے اپنی ترقیاتی پالیسیوں کو ایک نئے ماڈل کے تحت استوار کیا ہے، جس میں سرمایہ کاری، اختراع، اور نجی شعبے کی شمولیت مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) نے ابتدائی مرحلوں میں اربوں ریال کی سرمایہ کاری کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی، لیکن اب حکومت اس سرمایہ کاری کو نجی شعبے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈلز کے ذریعے آگے بڑھانے کی حکمتِ عملی اپنا رہی ہے۔
رپورٹ میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جیسے جیسے ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز ہو رہی ہے، بینکاری شعبے میں قرض کی طلب غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔ اب بینکوں کے لیے صرف ملکی ڈپازٹس پر انحصار ممکن نہیں رہا، لہٰذا وہ بیرونی سرمایہ کاری، بانڈز، اور مشترکہ قرضوں کے نئے ذرائع اپنا رہے ہیں۔ تاہم یہ تبدیلی مالیاتی خطرات کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے، جن کے لیے محتاط حکمتِ عملی اور مضبوط ریگولیٹری نظام کی ضرورت ہے۔
سعودی مرکزی بینک (SAMA) نے حالیہ عرصے میں مالیاتی نظام کے استحکام کے لیے کئی نئے اقدامات متعارف کرائے ہیں۔ ان میں ایک فیصد کا اضافی سرمایہ بفر (capital buffer) قائم کرنا شامل ہے تاکہ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ یا بیرونی مالی دباؤ کی صورت میں بینکنگ سسٹم کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مملکت اپنے مالیاتی نظام کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنانے کے لیے بھرپور تیاری کر رہی ہے۔
دوسری جانب، حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وژن 2030 سے وابستہ منصوبوں پر اخراجات جاری رہیں گے، کیونکہ یہ منصوبے مستقبل کی معیشت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
ان منصوبوں کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے (infrastructure)، سیاحت، لاجسٹکس، ٹیکنالوجی، توانائی، اور تفریح کے شعبوں میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ تاہم اس مسلسل سرمایہ کاری کے باعث قومی قرض میں بھی اضافہ ہو گا، جو ممکنہ طور پر 2024 کے آخر تک مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 26 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 36 فیصد تک جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ قرض ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے طویل مدتی آمدنی کے ذرائع میں تبدیل ہو جائے تو اسے مثبت سرمایہ کاری سمجھا جائے گا، نہ کہ بوجھ۔ یہی ماڈل کئی ترقی یافتہ معیشتوں نے بھی اپنایا ہے جہاں حکومتی سرمایہ کاری نے نجی شعبے کو متحرک کر کے روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کیے۔
سعودی عرب میں موجودہ مالیاتی ڈھانچہ اب ایک ایسے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ریاستی منصوبوں کے ساتھ ساتھ نجی سرمایہ کار بھی بڑے پیمانے پر کردار ادا کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز، ٹیکنالوجی کمپنیز، اور توانائی کے شعبے کے سرمایہ کار اب سعودی مارکیٹ کو مستقبل کے مواقع کا مرکز قرار دے رہے ہیں۔
حالیہ سالوں میں غیر تیل معیشت کی ترقی نے نہ صرف بین الاقوامی اعتماد میں اضافہ کیا بلکہ ملک میں روزگار، تعلیم، اور کاروباری مواقع میں بھی وسعت پیدا کی۔ سیاحت کے شعبے میں نئے ریزورٹس اور تفریحی منصوبوں نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا، جبکہ لاجسٹکس اور صنعتی زونز کی ترقی نے سعودی عرب کو ایک علاقائی کاروباری مرکز کے طور پر مضبوط کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ، حکومت نے مالیاتی نظم و ضبط (fiscal discipline) کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف سبسڈیز کے نظام میں شفافیت پیدا کی ہے۔ زکوٰۃ، ٹیکس، اور سرمایہ کاری کے قوانین میں اصلاحات نے مالیاتی استحکام کو بڑھایا اور کاروباری آسانی (ease of doing business) کے معیار میں بہتری لائی۔
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، بین الاقوامی شرحِ سود میں تبدیلیاں، اور جغرافیائی سیاسی عوامل سعودی معیشت کے لیے چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں۔ اسی لیے پالیسی ساز اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مالیاتی نظم و نسق، قرضوں کا محتاط انتظام، اور غیر تیل آمدنی کے ذرائع کو مسلسل وسعت دینا ضروری ہے۔
رپورٹ میں اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ سعودی معیشت اب ایک ایسے مقام پر ہے جہاں سماجی و اقتصادی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ تعلیم، صحت، خواتین کی شمولیت، اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں سرمایہ کاری نے ترقی کو انسانی وسائل کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
مختصراً، سعودی عرب اب ایک ایسے دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کی ترقی کا محور صرف تیل نہیں بلکہ انسان، ٹیکنالوجی، اختراع، اور علم پر مبنی معیشت ہے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو اگلے ایک عشرے میں مملکت نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا کی تیز ترین بڑھتی ہوئی غیر تیل معیشتوں میں شمار ہوگی۔
یہ پورا ماڈل وژن 2030 کے اس بنیادی تصور کو تقویت دیتا ہے جس کے تحت سعودی عرب ایک پائیدار، متنوع، اور جدید معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہے، جو اپنے شہریوں کو بہتر معیارِ زندگی فراہم کرے، عالمی سرمایہ کاروں کو اعتماد دے، اور خطے میں معاشی قیادت کو برقرار رکھے۔
