وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان جلد ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو جائے گا، جس کے بعد تقریباً ایک ارب چوبیس کروڑ ڈالر کی قسط جاری ہونے کی توقع ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والی بات چیت اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے، زیادہ تر تکنیکی معاملات طے پا چکے ہیں جبکہ چند پالیسی امور پر حتمی اتفاق رائے باقی ہے۔ یہ پیش رفت ملک کی اقتصادی بحالی اور مالی استحکام کی سمت ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، کیونکہ طویل مذاکرات اور سخت مالی اصلاحات کے بعد اب سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان کی معیشت کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا، جس میں سات ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام اور تقریباً ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی پروگرام شامل ہیں۔ اگرچہ وفد واپس جا چکا ہے، لیکن معاہدے کو حتمی شکل دینے کا عمل اب بھی دور دراز رابطوں کے ذریعے جاری ہے۔ دونوں جانب سے مذاکرات کو انتہائی نتیجہ خیز قرار دیا گیا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ یہ پیش رفت پاکستان کی مالی نظم و ضبط، بیرونی خسارے میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کی عکاس ہے۔
واشنگٹن میں منعقدہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان نے مشکل حالات کے باوجود ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد کا مضبوط عزم دکھایا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مذاکرات میں معیشت کے تمام اہم پہلوؤں جیسے مالی پالیسی، توانائی کے ڈھانچے میں اصلاحات، محصولات کے نظام کی بہتری اور سماجی تحفظ کے پروگراموں پر جامع گفتگو ہوئی۔ وزیر خزانہ نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ معاہدہ اسی ہفتے کے دوران طے پا جائے گا، جس سے بین الاقوامی مارکیٹوں کو پاکستان کے معاشی استحکام کا واضح پیغام جائے گا۔
جب آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اس معاہدے کی باضابطہ منظوری دے گا تو ایک ارب چوبیس کروڑ ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی، جس سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور کرنسی کے استحکام میں مدد ملے گی۔ حکومت اس رقم کو معاشرتی بہبود، غربت میں کمی اور پائیدار ترقی کے منصوبوں میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، خاص طور پر گرین ڈویلپمنٹ اور متبادل توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے اس موقع پر پاکستان کے مالی منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی، جن میں چین کی کرنسی یوآن میں پاکستان کا پہلا "گرین پانڈا بانڈ” جاری کرنے کا فیصلہ شامل ہے۔ اس اقدام کا مقصد مالیاتی ذرائع میں تنوع پیدا کرنا، ماحول دوست سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور علاقائی مالیاتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
حکومت آئندہ برس عالمی مارکیٹ میں دوبارہ بانڈز کے اجرا کی بھی تیاری کر رہی ہے، جن میں یوروبانڈز، سکوک اور ڈالر بانڈز شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق عالمی سرمایہ کار پاکستان کے مالیاتی آلات میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں کیونکہ ملک کی پالیسیوں میں تسلسل اور معاشی نظم و ضبط میں بہتری آئی ہے۔
اسی دوران حکومت نے ریاستی اداروں کی نجکاری کے عمل کو بھی تیز کر دیا ہے تاکہ مالی بوجھ میں کمی آئے اور نجی سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں۔ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ تین بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری پر کام جاری ہے۔ پی آئی اے جو پہلے شدید خسارے کا شکار تھی، اب برطانیہ اور یورپ کے منافع بخش روٹس کھولنے کے بعد سرمایہ کاروں کی توجہ دوبارہ حاصل کر رہی ہے۔ یہ اقدام گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑی نجکاری کوشش قرار دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد سرکاری اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی وضاحت کی کہ آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کے تحت ہر قسط کی ادائیگی باقاعدہ مالی جائزے سے مشروط ہوتی ہے۔ اس وقت نئے ٹیکس لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، تاہم مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے نتائج کے بعد محصولات کے اہداف میں رد و بدل ممکن ہے۔ اگر سال کے ابتدائی چھ ماہ میں ہدف حاصل نہ ہو سکے تو جنوری 2026 سے نئے اقدامات متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ برس جولائی میں ہونے والے تین سالہ سات ارب ڈالر کے معاہدے نے پاکستان کو اقتصادی استحکام حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس پروگرام کے نتیجے میں افراطِ زر پر قابو پانے، کرنسی کی قدر میں استحکام اور مالیاتی خسارے میں کمی کے آثار سامنے آئے۔ حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے گردشی قرضے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے مقامی بینکوں کے ساتھ تقریباً 1.27 کھرب روپے کا اسلامی مالیاتی معاہدہ کیا ہے تاکہ بجلی کے شعبے کے واجبات کو کم کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران وزیر خزانہ نے عالمی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی صرف مالی استحکام پر نہیں بلکہ طویل المدتی سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی پر بھی مرکوز ہے۔
انہوں نے امریکی حکام اور کاروباری شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی برآمدات پر محصولات میں کمی سے پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے مسابقتی ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے قابلِ ترقی شعبوں جیسے متبادل توانائی، معدنیات اور ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
پاکستان کی معیشت اگرچہ چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے لیکن مثبت سمت میں گامزن ہے۔ حکومت کا فوکس مالی نظم و ضبط، ڈھانچہ جاتی اصلاحات، اور پائیدار ترقی پر مرکوز ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ نہ صرف اگلی قسط کے اجرا کا باعث بنے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے مالی نظم و ضبط پر اعتماد کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔ ٹیکس، توانائی اور گورننس کے شعبوں میں جاری اصلاحات مستقبل میں پاکستان کی معیشت کو ایک مستحکم بنیاد فراہم کریں گی، جس سے ملک کو دیرپا اقتصادی استحکام حاصل ہو گا۔
