نیودہلی:بھارت میں افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے سرکاری استقبال نے سفارتی دنیا ہی نہیں بلکہ بھارتی سماجی حلقوں میں بھی بھونچال پیدا کر دیا ہے اور اس طوفان کے مرکز میں ہیں معروف نغمہ نگار و مصنف جاوید اختر۔
جاوید اختر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ (سابق ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بیانات دینے والے آج اُنہی لوگوں کو عزت دے رہے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو پروان چڑھایا، بطور بھارتی شہری، میں شرمندہ ہوں۔
انہوں نے خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کی جانب سے طالبان رہنما کے خیرمقدم پر سخت ردِعمل دیا، کہتے ہوئے کہ جس کے دورِ حکومت میں خواتین کو تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے، اُسے اسلامی ہیرو کہنا افسوسناک ہے۔”
یاد رہے کہ امیر خان متقی اس وقت بھارت کے چھ روزہ دورے پر ہیں یہ طالبان کے 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد کسی اعلیٰ طالبان رہنما کا پہلا باضابطہ بھارتی دورہ ہے۔ان کے بھارت پہنچنے کی اجازت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دی گئی عارضی سفری رعایت کے بعد ملی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ متقی پر 2001 سے سفری پابندی، اثاثوں کی منجمدی اور اسلحہ رکھنے پر قدغن عائد ہے، مگر دہلی میں ان کے استقبال میں بھارتی حکام اور مذہبی نمائندے پیش پیش دکھائی دیے۔
اسی دوران، دہلی میں متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی غیرموجودگی نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا۔
بھارتی صحافتی تنظیموں نے اسے خواتین کی توہین قرار دیا جبکہ سوشل میڈیا پر #TalibanInDelhi اور #JavedAkhtar ٹرینڈ کرنے لگے۔
کئی بھارتی صارفین نے جاوید اختر کی حمایت کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا کیا بھارت اب دہشت گرد گروہوں کے نمائندوں کے لیے سرخ قالین بچھائے گا؟
یہ دورہ جہاں سفارتی لحاظ سے بھارت کی نئی مصلحت پسندی کی علامت بتایا جا رہا ہے، وہیں اندرونِ ملک اس نے اخلاقی اور سیاسی دوغلے پن پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے
