افریقی جزیرہ ریاست مڈغاسکرمیں ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی، جہاں نوجوانوں کی قیادت میں چلنے والی تحریک نے 16 سال پرانی طاقتور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ صدر اینڈری راجویلینا ملک چھوڑ کر خفیہ طور پر فرانسیسی فوجی طیارے میں فرار ہو گئے، جب کہ فوج کے کئی یونٹس نے مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہ دنیا کی اُن چند حالیہ مثالوں میں سے ایک ہے جہاں جنریشن زی کی عوامی طاقت نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
سب کچھ اس وقت بدلا جب 25 ستمبر کو پانی اور بجلی کی شدید قلت پر شروع ہونے والے مظاہروں نے تیزی سے مہنگائی، کرپشن، اور سیاسی عدم مساوات کے خلاف بغاوت کی شکل اختیار کر لی۔ ملک بھر میں ہزاروں نوجوان، جن میں بڑی تعداد جنریشن زی (2000 کے بعد پیدا ہونے والے) کی تھی، دارالحکومت کے چوکوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔
ملک کے طاقتور فوجی یونٹ کیپسیٹ نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد سیاسی منظرنامہ پلٹ گیا۔ پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے ہنگامی اجلاس میں صدر کو برطرف کر کے ژاں آندرے ندرمنجاری کو عبوری صدر مقرر کر دیا۔
حزبِ اختلاف کے رہنماسیتنی رانڈریاناسولونائیکو نے انکشاف کیا کہ صدر ہفتے کی شب ملک سے فرار ہوئے۔ ایک فوجی ذریعے کے مطابق، راجویلینا کو لے جانے والا طیارہ فرانسیسی فوج کا تھا، اور مبینہ طور پر ان کی روانگی صدر میکرون کے ساتھ ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہوئی۔ فرانسیسی صدر نے اس کی تصدیق سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ مڈغاسکر میں آئینی نظام برقرار رہنا چاہیے۔
مڈغاسکر کی نصف سے زیادہ آبادی 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو برسوں سے غربت، بے روزگاری اور حکومتی بے حسی کا شکار ہیں۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ 16 سال میں صرف حکمران امیر ہوئے، عوام نہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، گزشتہ تین ہفتوں میں مظاہروں کے دوران کم از کم 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ بغاوت صرف مڈغاسکر کی نہیں بلکہ ایک عالمی علامت بن کر ابھری ہے، جہاں نوجوان نسل سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہی ہے۔ چند ہفتے قبل ایک اور افریقی ملک میں اسی نسل کی قیادت میں حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا، جس سے یہ واضح ہے کہ نئی نسل اب صرف تماشائی نہیں، بلکہ تبدیلی کی طاقت ہے