وینزویلا کی جانب سے ناروے میں اپنا سفارت خانہ اچانک بند کیے جانے کے فیصلے نے نہ صرف یورپی سفارتی حلقوں میں حیرت پیدا کر دی ہے بلکہ اس کے پس منظر میں پوشیدہ وجوہات پر بھی کئی قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اوسلو میں قائم وینزویلا کا یہ سفارتی مشن گزشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان رابطے کا ایک اہم ذریعہ تھا، تاہم اب اس کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔
ناروے کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان سیسیلی روانگ نے تصدیق کی کہ وینزویلا کے سفارت خانے نے باضابطہ طور پر بندش کی اطلاع دے دی ہے۔ ان کے بقول، اس اقدام کے پیچھے وجوہات سے ناروے کو آگاہ نہیں کیا گیا، جو افسوس ناک بات ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اختلافات کے باوجود ناروے ہمیشہ گفت و شنید کے دروازے کھلے رکھنے پر یقین رکھتا ہے اور مستقبل میں بھی وینزویلا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب صرف تین روز قبل اوسلو میں وینزویلا کی حزبِ اختلاف کی رہنما ماریا کورینا ماچادو کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ماچادو، جو صدر نکولس مادورو کی سخت ناقد سمجھی جاتی ہیں، کئی سالوں سے جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم ہیں اور انہیں مادورو حکومت کی جانب سے بارہا سیاسی دباؤ اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
وینزویلا کی وزارتِ خارجہ نے کراکس سے جاری ایک بیان میں وضاحت دی کہ اوسلو میں سفارت خانہ بند کرنا کسی سیاسی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ بیرون ملک سفارتی ڈھانچے کی تنظیمِ نو کا حصہ ہے۔ وزارت کے مطابق، حکومت نے ایک وسیع منصوبے کے تحت آسٹریلیا میں بھی اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے، جبکہ زمبابوے اور برکینا فاسو میں نئے سفارتی مشن قائم کیے گئے ہیں۔ ان دونوں افریقی ممالک کو وینزویلا نے “استعماری دباؤ کے خلاف جدوجہد میں اپنے اسٹریٹجک شراکت دار” قرار دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وینزویلا کے اس اقدام کا وقت غیر معمولی طور پر معنی خیز ہے۔ نوبل انعام کی تقریب میں ماچادو کو عالمی سطح پر پذیرائی ملنا مادورو حکومت کے لیے ایک علامتی دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس انعام نے ان کی سیاسی جدوجہد کو عالمی سطح پر قانونی حیثیت عطا کی ہے۔
نوبل کمیٹی نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ماچادو کو یہ انعام وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے لیے ان کی ثابت قدمی اور ملک کو آمریت سے جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا۔ تاہم ناروے کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس انعام کا حکومتِ ناروے سے کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوبل انعام سے متعلق تمام فیصلے مکمل طور پر آزاد کمیٹی کرتی ہے اور یہ ناروے کے حکومتی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
ادھر کراکس میں صدر نکولس مادورو نے نوبل انعام کے اعلان کے بعد براہِ راست ماچادو کا نام لیے بغیر اپنی تقریر میں انہیں "شیطانی جادوگرنی” کے الفاظ سے یاد کیا، جو وینزویلا کی حکومت اکثر اپنے مخالفین کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ماچادو کو 2024 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، وہ انتخابات جن میں مادورو کی جیت کا اعلان کیا گیا، حالانکہ اپوزیشن نے ان نتائج کو متنازع قرار دیا تھا۔
ماچادو نے انعام ملنے کے بعد ایک بیان میں اسے وینزویلا کے “پریشان حال عوام” کے نام کیا اور اپنی جدوجہد میں “فیصلہ کن حمایت” پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد صرف اقتدار کی تبدیلی نہیں بلکہ قوم کو آزاد اور باوقار جمہوری سمت میں لے جانا ہے۔
ان کے بیان کے کچھ ہی گھنٹے بعد کولمبیا میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں دو وینزویلین کارکنوں، یندری ویلاسکزی اور لوئیس الیخاندرو بیچی، پر فائرنگ کی گئی۔ کولمبیا کی پولیس کے مطابق یہ حملہ اس وقت ہوا جب دونوں کارکن ایک بس پر سوار ہونے والے تھے۔ ماچادو نے اس واقعے کو مادورو حکومت کے مبینہ سیاسی تشدد سے جوڑتے ہوئے کولمبیا کے حکام سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، وینزویلا کی جانب سے اوسلو میں سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان صرف انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ ایک علامتی پیغام بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ حکومت نوبل انعام کے بعد پیدا ہونے والی بین الاقوامی توجہ سے خود کو الگ ظاہر کرنا چاہتی ہو یا مغربی ممالک کو سفارتی دباؤ کا اشارہ دے رہی ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وینزویلا طویل عرصے سے عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے مادورو حکومت پر انتخابی بے ضابطگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی مخالفین پر جبر کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ایسے میں نوبل انعام جیسے واقعے کے بعد ناروے میں سفارت خانہ بند کرنا ایک علامتی مزاحمتی قدم کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
کئی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وینزویلا کا نیا سفارتی جھکاؤ افریقہ کی طرف بڑھنا دراصل اس کی “غیر مغربی سفارت کاری” کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ زمبابوے اور برکینا فاسو جیسے ممالک، جو مغربی دباؤ کے خلاف مزاحم موقف رکھتے ہیں، اب وینزویلا کے نئے اتحادی کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
یوں، اوسلو میں سفارت خانے کی بندش بظاہر ایک انتظامی فیصلہ ضرور ہے، مگر اس کے پیچھے سیاسی علامتوں، سفارتی اشاروں اور اندرونی و بیرونی تناؤ کی ایک پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ وینزویلا کے سیاسی بحران اور جمہوریت کے مستقبل پر عالمی توجہ بدستور قائم ہے، اور اس کی ہر سفارتی حرکت دنیا کی نظروں میں ایک نیا پیغام بن کر ابھرتی ہے۔
