لاہور لاہور پریس کلب میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی (PKRC) اور تعمیرِ نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن (TWWO) کے زیرِ اہتمام دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک بھرپور تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں 120 سے زائد خواتین کسانوں اور مزدوروں نے شرکت کی۔ شرکاء نے مطالبہ کیا کہ حکومت زمین، پانی، بیج اور وسائل تک خواتین کی مساوی رسائی یقینی بنائے اور صنفی انصاف پر مبنی غذائی نظام قائم کرے تاکہ خواتین کے کردار کو تسلیم کیا جا سکے جو ملک کی غذائی خود کفالت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ تقریب ایشیائی پیپلز موومنٹ آن ڈیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (APMDD) کے تحت ایشیا بھر میں خواتین کی قیادت میں جاری تحرکات کا حصہ تھی، جس کا مقصد خواتین کسانوں کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
تعمیرِ نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن کی چیئرپرسن رفعت مقصود نے کہا کہ پاکستان کی دیہی خواتین ہماری غذائی پیداوار کا بنیادی ستون ہیں، مگر بدقسمتی سے انہیں پالیسی سازی اور وسائل کی تقسیم میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بیج بونے سے لے کر فصل کی کٹائی تک خواتین محنت کرتی ہیں، مگر سیلاب، خشک سالی اور کارپوریٹ زمینوں پر قبضے ان کے لیے روزگار کے دروازے بند کر رہے ہیں۔ ہمیں خیرات نہیں، انصاف چاہیے — زمین، پانی اور منصفانہ قیمتوں کا حق چاہیے۔
شرکاء نے کہا کہ پاکستان کے زرعی شعبے پر موسمیاتی تباہ کاریوں کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ صرف 2022ء کے تباہ کن سیلابوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب کر دیا تھا، جس سے 40 لاکھ سے زائد خواتین کسان متاثر ہوئیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین اب بھی پانی اور ایندھن کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ موسمیاتی دباؤ ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے نمائندے نے کہا، غریب خواتین کسان وہ بحران برداشت کر رہی ہیں جسے انہوں نے پیدا نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی معاہدوں کے تحت امیر ممالک سے گرین گرانٹس پر مبنی کلائمیٹ فنانس کا مطالبہ کرے تاکہ پاکستان کا زرعی نظام پائیدار اور مساوات پر مبنی بنایا جا سکے۔
تقریب کا انعقاد عالمی یومِ خوراک اور خوراک و زراعت کے اقوامِ متحدہ ادارے (FAO) کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر بھی کیا گیا۔ مقررین نے FAO کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی زراعت نے زمینوں کو بنجر، پانی کو آلودہ، اور چھوٹے کسانوں کو بے دخل کر دیا ہے۔
رفعت مقصود نے مزید کہا کہ FAO کے 80 سال مکمل ہونے پر دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ کارپوریٹ زراعت غذائی تحفظ نہیں بلکہ بحران لائی ہے۔ حقیقی غذائی سلامتی خواتین کی قیادت میں، ماحول دوست اور چھوٹے پیمانے کی زراعت سے ہی ممکن ہے۔
یہ اجتماع نہ صرف خواتین کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز بن کر اُبھرا بلکہ ایک واضح پیغام بھی دیا،غذائی انصاف تبھی ممکن ہے جب زمین پر کام کرنے والی خواتین کو ان کا جائز حق دیا جائے۔
