ریاض کے ایک کارٹنگ ٹریک پر ایک کم عمر بچی نے پہلی مرتبہ ریسنگ کار کے پہیے کو ہاتھ لگایا تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ بچی ایک دن عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرے گی۔ وہ بچی آج عرشیا اختر کے نام سے دنیا کے ریسنگ سرکٹس میں پہچانی جاتی ہے — ایک ایسی پاکستانی خاتون جو نہ صرف تیز رفتاری کی شوقین ہے بلکہ فیا (FIA) جیسے بین الاقوامی ادارے سے باقاعدہ پیشہ ورانہ لائسنس حاصل کرنے والی اپنی قوم کی پہلی خاتون بھی بن چکی ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو انہیں عالمی فارمولا ریسنگ میں چند گنی چنی خواتین کے صف میں لے آیا ہے۔
عرشیا کی زندگی کی کہانی لاہور سے شروع ہوتی ہے، جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ تاہم ان کی پرورش سعودی عرب میں ہوئی، وہیں ان کے اندر ریسنگ کا شوق پروان چڑھا۔ 2017 میں وہ امریکہ منتقل ہوئیں، جہاں آج وہ کلینیکل ریسرچ کے شعبے میں ایک مکمل وقتی پیشہ ور ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی ریسنگ کی لگن کو بھی پورے جوش و خروش سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ ان کے بقول، "میری والدہ اور بہن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں، لیکن میرے والد ہمیشہ سے کھیلوں کے شوقین رہے، اور انہی کی بدولت میں نے یہ راستہ اختیار کیا۔”
عرشیا نے صرف گیارہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ کارٹنگ ٹریک پر گاڑی چلائی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ واپس آئیں، اور اپنی نوعمری میں ہی مقابلہ جاتی ریسنگ کی جانب بڑھنے لگیں۔ ان کی پیش رفت نے جلد ہی انہیں فارمولا ریس پروموشنز سیریز اور ایف 4 یو ایس چیمپئن شپ جیسے بین الاقوامی مقابلوں تک پہنچا دیا، جہاں وہ دنیا بھر کے ڈرائیورز کے ساتھ حصہ لیتی ہیں۔
فارمولا ریس پروموشنز کے مالک رابرٹ رائٹ کے مطابق، "عرشیا نے رواں سال ہمارے ساتھ باقاعدہ شرکت شروع کی اور پورے سیزن میں مسلسل بہتری دکھائی۔” ان کے بقول، "اس سیزن میں عرشیا پوائنٹس کی دوڑ میں چوتھے نمبر پر رہیں اور 2026 میں ان کی مزید تربیت اور بہتری کے لیے نئے منصوبے زیر غور ہیں۔”
فیا لائسنس حاصل کرنا ان کے لیے ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ ایک پاکستانی خاتون کے طور پر، جو مغربی غلبے والے کھیل میں جگہ بنا رہی تھیں، انہیں قدم قدم پر خود سیکھنا اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے کئی مہینے ریگولیشنز، کار کے تکنیکی پہلوؤں اور مختلف ریس کیٹیگریز کا مطالعہ کرنے میں گزارے تاکہ وہ فیا کے معیار پر پورا اتر سکیں۔
عرشیا اس وقت گریڈ سی فیا لائسنس رکھتی ہیں، اور گریڈ بی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہیں، جو انہیں عالمی سطح کے "سپر لائسنس” کے قریب لے جائے گا۔ وہ بتاتی ہیں، "ہر چیمپئن شپ میں جب میں ٹاپ ٹین میں آتی ہوں تو پوائنٹس ملتے ہیں، اور یہی پوائنٹس سپر لائسنس کے لیے بنیاد بنتے ہیں۔”
امریکہ کے مختلف سرکٹس پر ان کی شرکت نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ ان کے کوچ، پیشہ ور ڈرائیور نیتھن برڈ، ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں، "عرشیا ایک تیز سیکھنے والی اور غیر معمولی توجہ رکھنے والی ڈرائیور ہیں۔ وہ ہر فیڈبیک کو عملی شکل دیتی ہیں اور بہت جلد بہتری دکھاتی ہیں۔”
عرشیا اس وقت فارمولا ای ریسنگ میں حصہ لے رہی ہیں، جو برقی رفتار، حکمت عملی اور درستگی کا ایک منفرد امتزاج ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں معمولی سی غلطی بھی ڈرائیور کو پیچھے دھکیل دیتی ہے، مگر عرشیا نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ایک نیا چہرہ نہیں بلکہ ایک ابھرتا ہوا نام ہیں۔
ریسنگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی زندگی بھی غیر معمولی مصروفیت سے بھری ہوئی ہے۔ وہ صبح سویرے جاگتی ہیں، ای میلز چیک کرتی ہیں، اسپانسرز یا ریسنگ ٹیم کے کالز نمٹاتی ہیں اور پھر 7:30 بجے اپنی ریسرچ کی نوکری کا آغاز کرتی ہیں۔ شام میں وہ اپنے کتوں کو پارک لے جاتی ہیں، جم میں ورزش کرتی ہیں، ریسنگ سیمولیٹر پر پریکٹس کرتی ہیں، اور اکثر رات گئے تک مصروف رہتی ہیں۔
ریسنگ ایک مہنگا شوق ہے، لیکن عرشیا نے اب تک اپنی تمام مالی ذمہ داریاں خود اٹھائی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ اسپانسرز کا تعاون ضروری ہے، مگر اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنا انہیں مزید مضبوط بناتا ہے۔
موٹر اسپورٹس میں خواتین کی نمائندگی اب بھی نہایت محدود ہے۔ سابق فارمولا ون ڈرائیور ڈیوڈ کولتھارڈ کی سربراہی میں ہونے والی 2023 کی ایک تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں صرف 10 فیصد کے قریب خواتین اس شعبے میں حصہ لیتی ہیں۔ اس تناظر میں عرشیا کا سفر محض ایک ذاتی کامیابی نہیں بلکہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک نیا راستہ کھولنے کے مترادف ہے۔
عرشیا اعتراف کرتی ہیں کہ اکثر اوقات وہ ان ٹریکس پر ریس کرتی ہیں جہاں ان کے مقابلے میں دوسرے ڈرائیورز کئی بار پہلے دوڑ چکے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "میرے لیے تقریباً ہر سرکٹ پہلی بار ہوتا ہے، جبکہ میرے حریف اکثر 10 یا 12 مرتبہ وہاں دوڑ چکے ہوتے ہیں۔” اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ گھنٹوں سمیولیشن اور ویڈیو اینالیسز پر وقت لگاتی ہیں۔ تاہم ان کے مطابق، "حقیقی ٹریک پر آنے کے بعد جو دباؤ ہوتا ہے، اسے کوئی پریکٹس مکمل طور پر نقل نہیں کر سکتی۔”
ریسنگ کے علاوہ، عرشیا کی دلچسپیوں کی فہرست بھی کافی طویل ہے۔ وہ گھڑسواری میں حصہ لے چکی ہیں، جہاں انہوں نے متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے علاوہ وہ اسنوبورڈنگ، اسکائی ڈائیونگ اور اسکوبا ڈائیونگ جیسے کھیلوں سے بھی لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، "میرے خاندان نے آخرکار یہ مان لیا ہے کہ میں ان کی سب سے الگ مزاج اولاد ہوں!”
تعلیمی میدان میں بھی عرشیا کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی میں ڈین کی فہرست میں جگہ بنائی اور سائنسی تحقیقی جرائد میں مضامین شائع کیے۔ اب ان کا مقصد صرف خود آگے بڑھنا نہیں بلکہ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستانی لڑکیاں نہ صرف ڈرائیورز بلکہ انجینئرنگ، ٹیم مینجمنٹ اور ٹیکنیکل اسسٹنس جیسے شعبوں میں بھی آگے آئیں۔
وہ پرعزم لہجے میں کہتی ہیں، "ہم اپنی روایات خود بناتے ہیں۔ اگر آپ یقین رکھتے ہیں کہ کچھ معمول بن سکتا ہے، اور آپ اسے کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو ایک دن وہ واقعی معمول بن جاتا ہے۔”
عرشیا اختر کا یہ سفر صرف رفتار یا کامیابی کی کہانی نہیں، بلکہ اس سوچ کی علامت ہے کہ اگر عزم اور شوق ساتھ ہوں تو قوم، جنس یا جغرافیہ کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔ وہ آج نہ صرف ایک ڈرائیور بلکہ ایک مثال ہیں — پاکستان کی پہلی پیشہ ور خاتون ریسنگ لائسنس ہولڈر، جو دنیا کو یہ دکھا رہی ہیں کہ خواب اگر سچے جذبے سے دیکھے جائیں تو حقیقت بن جاتے ہیں۔
